تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) وراثت کی تقسیم میں پہلے اصحاب الفروض کو ان کے مقررہ حصے دیے جاتے ہیں۔ جو کچھ ان سے بچے وہ میت کے رشتے داروں کو دیا جاتا ہے۔ اگر آزاد کردہ غلام کے عصبہ رشتےدار نہ ہوں تو آزاد کرنے والا عصبہ کی جگہ وارث ہوگا۔ اگر غلام کے اصحاب الفروض اور عصبہ رشتہ دار نہ ہوں تو سارا ترکہ آزاد کرنے والے کو ملے گا۔
(3) حضرت ام وائل کی ولاء ان کے بیٹوں کو ملی۔ بیٹوں کی وفات کے بعد ولاء اسی خاندان، یعنی ان بچوں کے دوھیال اور ام وائل کےسسرال میں رہی۔ ام وائل کے میکے اوربچوں کےننھیال والے جو اس ترکے کے دعویدار تھے، ان کا دعویٰ قبول نہیں کیا گیا۔
(3) عصبہ کی موجودگی میں ذوی الارحام وارث نہیں ہوتے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة "
5 / 248 : أخرجه أبو داود ( 2 / 20 ) و ابن ماجة ( 2 / 165 ) و أحمد ( 1 / 27 ) عن حسين المعلم عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده : " أن رئاب بن حذيفة تزوج امرأة ، فولدت له ثلاثة غلمة ، فماتت أمهم ، فورثوها رباعها و ولاء مواليها ، و كان عمرو بن العاص عصبة بنيها ، فأخرجهم إلى الشام ، فماتوا ، فقدم عمرو بن العاص
و مات مولى لها ، و ترك مالا ، فخاصمه إخوتها إلى عمر بن الخطاب ، فقال عمر : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " فذكره . قلت : و هذا إسناد حسن . ثم خرجت الحديث في " صحيح أبي داود " ( 2550 ) من رواية البيهقي عنه . و تكلمت عليه بأبسط مما هنا و ذكرت من قواه من العلماء .