تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مدینے میں ہونے کے باوجود سفر میں مجاہدین کے ساتھ ہونے کا مطلب سفر کی مشقتوں کے ثواب میں شرکت ہے۔ یہ ثواب انھیں خلوص نیت کی وجہ سے ملا۔
(2) کسی واقعی عذر کی وجہ سے جہاد میں شریک نہ ہونے والا اگر خلوص دل سے شرکت کی تمنا رکھتا ہوتو وہ ثواب کا مستحق ہوجاتا ہے۔
(3) عذر والے صحابہ رضی اللہ عنہ کا جہاد میں شریک ہونا ذاتی طور پر نہ تھا کیونکہ ایک انسان ایک وقت میں دو مقامات پر موجود نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ کرامت کسی کو حاصل ہوسکتی ہے تو ان مخلص صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوتی لیکن رسول اللہﷺ نے وضاحت فرمادی کہ وہ حضرات عملی طور پر مدینے ہی میں تھے جہاد میں اور جہاد کے سفر میں ذاتی طور پر حاضر نہیں تھے ورنہ عذر کے رکاوٹ بننے کا کوئی مفہوم نہیں رہتا۔ اگلی حدیث میں وضاحت ہے کہ یہ شرکت ثواب میں تھی۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وأخرجه البخاري وابن حبان) . إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: ثنا حماد عن حميد عن موسى بن أنس ابن مالك عن أبيه.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم؛ وحماد: هو ابن سلمة. والحديث أخرجه البيهقي (9/24) من طريق المؤلف.
وعلقه البخاري (الجهاد/35) من هذا الوجه. ووصله أحمد (3/160 و 214) من طرق أخرى عن حماد بن سلمة... به.
وأخرجه هو (3/103 و 182) ، والبخاري وابن ماجه (2/174) من طرق أخرى عن حميد عن أنس... به.
وصححه ابن حبان (1623) . وله شاهد عن جابر: رواه مسلم (6/49) ، وابن ماجه (2765) .