تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے۔ اور مزید کہا ہے کہ سنن نسائی کی روایت (3171) اس سے کفایت کرتی ہے۔ نیز اسی مفہوم کی ایک روایت مسند احمد میں بھی مروی ہے جسے (الموسوعة الحديثييه) کے محققین نے تفصیلی گفتگو کے بعد حسن قراردیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: (حَرْسُ لَيْلَةٍ فِي سَبِيْلِ اللهِ أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ لَيْلَةٍ يُقَامُ لَيْلُهَا وَيُصَامُ نَهَارُهَا) محققین کی تفصیلی بحث سے تحسین حدیث والی رائے ہی أَقْرَبُ إِلَی الصَّوَابِ معلوم ہوتی ہے لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود حدیث میں مذکورہ فضیلت صحیح ہے۔واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثيه مسند الإمام أحمد:٤٨٩/٤٨٨/١ )
(2) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ابتداء میں یہ حدیث بیان کرنے سے اس لیے تامل کیا تھا کہ یہ حدیث سن کر کبار صحابہ کرام رضوان اللہ عليهم بھی جہاد کے لیے چلے جائیں گے۔ جب کہ امیر المومنین کواہم معاملات میں مشورے کے لیے ان کی مدینہ منورہ میں موجودگی کی ضرورت تھی۔
(3) بعد میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث اس لیے بیان فرما دی کہ جو شخص نیکی کا ایک عمل کرکے بلند درجات حاصل کرنا چاہتا ہے اسے اس (جہاد جیسی عظیم) نیکی سے روکنا مناسب نہیں۔
(4) روزہ دن کے وقت ہوتا ہےاس لیے حدیث کا یہ مطلب ہے کہ محاذ پر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاری کی حالت میں ایک ایک رات گزارنے کا ثواب ایک ہزار دن کے روزوں اور ایک ہزار راتوں کے قیام کے ثواب کے برابر ہے۔