تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) صلح حدیبیہ ذوالقعدہ 6ھ میں ہوئی۔ رسول اللہﷺ چودہ سو صحابہ کے ساتھ یکم ذوالقعدہ کو مدینے سے روانہ ہوئے۔ مکہ شریف کے قریب حدیبیہ کے مقام پر مشرکین نے آپ ﷺ آپ کو روک دیا۔ تب فریقین میں مذاکرات کے بعد یہ طے ہوا کہ مسلمان اگلے سال عمرے لے لیے آ سکتے ہیں۔چنانچہ وہیں احرام کھول کر قربانیاں کر کے مسلمان واپس آ گئے۔ اس سفر میں اگرچہ عملی طور پر عمرہ ادا نہیں ہوسکا تاہم اس کا ثواب مل گیا اس لیے اسے عمرہ شمار کیا جاتا ہے۔
(3) عمرۃ القضاء سے مراد وہ عمرہ ہےجو حدیبیہ میں طے پانے والے معاہدے کے مطابق ادا کیاگیا۔ صلح حدیبیہ کے سفر میں شریک صحابہ میں سے جتنے زندہ تھےسب اس عمرے میں شریک تھے۔ ان کے علاوہ اور مسلمان بھی شریک ہوگئے۔ اس طرح دوہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ ذوالقعدہ 7ھ میں عمرہ کیا۔
(3) شوال 8ھ میں غزوہ حنین پیش آیا جس کی تکمیل غزوہ طائف سے ہوئی اس سے واپسی پررسول اللہﷺ جعرانہ کے مقام پر ٹھہرے اور مال غنیمت مجاہدین میں تقسیم کیا۔ اس سے فارغ ہوکرجعرانه ہی سے احرام باندھ کر عمرہ کیا۔ یہ عمرہ ذوالقعدہ8ھ میں کیا گیا۔
(4) چوتھا عمرہ رسول اللہﷺ نے حج کے ساتھ کیا۔ اس کے لیے سفر کا آغاز ذوالقعدہ10 ھ کے آخری ایام میں ہوا جبکہ عمرہ کی ادائیگی4 ذوالحجہ کو ہوئی۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين، وصححه ابن حبان والحاكم والذهبي، وقال الترمذي: " حديث حسن غريب ") .
إسناده: حدثنا النفيلي وقتيبة قالا: ثنا داود بن عبد الرحمن العَطار عن عمرو ابن دينار عن عكرمة عن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين.
والحديث أخرجه الترمذي (816) ... بإسناد المصنف الثاني، وقال: " حديث حسن غريب. ورواه ابن عيينة عن عمرو بن دينار عن عكرمة: أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... لم يذكر فيه: عن ابن عباس ". ثم ساق إسناده الصحيح بذلك.
وأقول: داود بن عبد الرحمن- وهو العطار- ثقة من رجال الشيخين، وقد وصله بذكر ابن عباس فيه، وهي زيادة من ثقة؛ فيجب قبولها، وقد صححه من يأتي ذكرهم. ويشهد له حديث أنس الذي بعده. وأخرجه الدارمي (2/51) ، وابن حبان (1018) ، والحاكم (3/50) ، والبيهقي (5/12) ، وأحمد (1/246 و 321) من طرق أخرى عن داود بن عبد الرحمن... به. وقال الحاكم: " صحيح الإسناد "، ووافقه الذهبي.
قلت: ولو زادا: " على شرط الشيخين "- كما قلنا- لأصابا.