قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات و شمائل للنبی صلی اللہ علیہ وسلم

سنن ابن ماجه: كِتَابُ الطِّبِّ (بَابُ السِّحْرِ)

حکم : صحیح 

3545. حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: سَحَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَهُودِيٌّ مِنْ يَهُودِ بَنِي زُرَيْقٍ يُقَالُ لَهُ لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ، حَتَّى كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَلَا يَفْعَلُهُ، قَالَتْ: حَتَّى إِذَا كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ - أَوْ كَانَ ذَاتَ لَيْلَةٍ - دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ دَعَا، ثُمَّ دَعَا، ثُمَّ قَالَ: يَا عَائِشَةُ أَشَعَرْتِ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَفْتَانِي فِيمَا اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ؟ جَاءَنِي رَجُلَانِ، فَجَلَسَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي، وَالْآخَرُ عِنْدَ رِجْلِي فَقَالَ: الَّذِي عِنْدَ رَأْسِي لِلَّذِي عِنْدَ رِجْلِي - أَوِ الَّذِي عِنْدَ رِجْلِي لِلَّذِي عِنْدَ رَأْسِي - مَا وَجَعُ الرَّجُلِ قَالَ: مَطْبُوبٌ. قَالَ: مَنْ طَبَّهُ قَالَ: لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ. قَالَ: فِي أَيِّ شَيْءٍ؟ قَالَ: فِي مُشْطٍ، وَمُشَاطَةٍ، وَجُفِّ طَلْعَةِ ذَكَرٍ. قَالَ: وَأَيْنَ هُوَ؟ قَالَ: فِي بِئْرِ ذِي أَرْوَانَ قَالَتْ: فَأَتَاهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ: «وَاللَّهِ يَا عَائِشَةُ لَكَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الْحِنَّاءِ، وَلَكَأَنَّ نَخْلَهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ» قَالَتْ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا أَحْرَقْتَهُ؟ قَالَ: «لَا، أَمَّا أَنَا فَقَدْ عَافَانِي اللَّهُ، وَكَرِهْتُ أَنْ أُثِيرَ عَلَى النَّاسِ مِنْهُ شَرًّا» فَأَمَرَ بِهَا فَدُفِنَتْ

مترجم:

3545.

ام المومنین حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: قبیلۂ بنو زریق کے ایک یہودی نے نبی ﷺ پر جادو کیا۔ اس شخص کا نام لبید بن اعصم تھا۔ حتی کہ (یہ حالت ہوگئی کہ) نبی ﷺ کو یہ خیال ہوتا کہ آپﷺ فلان کام کرلیں گے، اور اسےکر نہ سکتے۔ ایک دن یا ایک رات کی بات ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے خوب دعا کی۔ اس کے بعد فرمایا: ’’عائشہ! کیا تجھے معلوم ہے کہ میں نےاللہ تعالی سے جس کام کے بارے میں رہنمائی طلب کی تھی، اللہ تعالی نے اسکےبارے میں میری رہنمائی فرما دی ہے۔ میرے پاس دو آدمی آئے۔ ایک میرے سر کے قریب بیٹھ گیا ارو دوسرا میرے پاؤں کی طرف بیٹھ گیا۔ میرےسر کےپاس بیٹھے ہوئے نےمیرے پاؤں کے پاس بیٹھے ہوئے سے،یا پاؤں کے پاس بیٹھے ہوئے نے سر کے پاس بیٹھے ہوئے سے کہا: اس شخص کو کیا تکلیف ہے؟ دوسرے نےکہا: اس پرجادو کیا گیا ہے۔ اس نےکہا: جادو کس نے کیا؟ اس نے کہا: لبید بن اعصم نے۔ اس نے کہا: کس چیز میں؟ اس نے کہا کنگھی میں، کنگھی کے ساتھ اتر ے ہوئے (سر کے) بالوں میں اور نر کھجور کے خوشے کے غلاف میں۔ اس نے کہا: وہ کہاں ہے؟ اس نے کیا: ذی اروان کےکنویں میں۔‘‘ ام المومنین‬ ؓ ب‬یان فرماتی ہیں: نبی ﷺ اپنے چند صحابہ کےہمراہ اس کنویں پر تشریف لے گئے۔ واپس آنے کےبعد فرمایا: ’’قسم اللہ کی! عائشہ! اس کنویں کا پانی ایسا تھا جیسے پانی میں منہدی بھگوئی گئی ہو۔ اورکھجور کے درخت ایسے تھے جیسے شیطانوں کے سر۔‘‘ میں نے کہا:اے اللہ کے رسولﷺ! آپ نے اسے جلا کیوں نہ دیا؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔ مجھے تو اللہ تعالی نے شفا دے دی ہے اور میں نہیں پسند کرتا کہ لوگوں میں اس کی وجہ سے شر پھیلاؤں۔‘‘ پھر نبی ﷺ کے حکم سے یہ چیزیں دفن کر دی گئیں۔