قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن ابن ماجه: كِتَابُ الْفِتَنِ (بَابُ فِتْنَةِ الدَّجَالِ، وَخُرُوجِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَخُرُوجِ يَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ)

حکم : صحیح 

4075. حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّهُ سَمِعَ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْكِلَابِيَّ يَقُولُ ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ الْغَدَاةَ فَخَفَضَ فِيهِ وَرَفَعَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ فَلَمَّا رُحْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَفَ ذَلِكَ فِينَا فَقَالَ مَا شَأْنُكُمْ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ الْغَدَاةَ فَخَفَضْتَ فِيهِ ثُمَّ رَفَعْتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ قَالَ غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَيْكُمْ إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ عَيْنُهُ قَائِمَةٌ كَأَنِّي أُشَبِّهُهُ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ فَمَنْ رَآهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ خَلَّةٍ بَيْنَ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ فَعَاثَ يَمِينًا وَعَاثَ شِمَالًا يَا عِبَادَ اللَّهِ اثْبُتُوا قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا لُبْثُهُ فِي الْأَرْضِ قَالَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا يَوْمٌ كَسَنَةٍ وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَسَنَةٍ تَكْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ قَالَ فَاقْدُرُوا لَهُ قَدْرَهُ قَالَ قُلْنَا فَمَا إِسْرَاعُهُ فِي الْأَرْضِ قَالَ كَالْغَيْثِ اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّيحُ قَالَ فَيَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ فَيَأْمُرُ السَّمَاءَ أَنْ تُمْطِرَ فَتُمْطِرَ وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ أَنْ تُنْبِتَ فَتُنْبِتَ وَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ أَطْوَلَ مَا كَانَتْ ذُرًى وَأَسْبَغَهُ ضُرُوعًا وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ فَيُصْبِحُونَ مُمْحِلِينَ مَا بِأَيْدِيهِمْ شَيْءٌ ثُمَّ يَمُرَّ بِالْخَرِبَةِ فَيَقُولُ لَهَا أَخْرِجِي كُنُوزَكِ فَيَنْطَلِقُ فَتَتْبَعُهُ كُنُوزُهَا كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ ثُمَّ يَدْعُو رَجُلًا مُمْتَلِئًا شَبَابًا فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ ضَرْبَةً فَيَقْطَعُهُ جِزْلَتَيْنِ رَمْيَةَ الْغَرَضِ ثُمَّ يَدْعُوهُ فَيُقْبِلُ يَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ يَضْحَكُ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ وَإِذَا رَفَعَهُ يَنْحَدِرُ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ وَلَا يَحِلُّ لِكَافِرٍ يَجِدُ رِيحَ نَفَسِهِ إِلَّا مَاتَ وَنَفَسُهُ يَنْتَهِي حَيْثُ يَنْتَهِي طَرَفُهُ فَيَنْطَلِقُ حَتَّى يُدْرِكَهُ عِنْدَ بَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يَأْتِي نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى قَوْمًا قَدْ عَصَمَهُمْ اللَّهُ فَيَمْسَحُ وُجُوهَهُمْ وَيُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ أَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ يَا عِيسَى إِنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ وَأَحْرِزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ وَيَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَهُمْ كَمَا قَالَ اللَّهُ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ فَيَمُرُّ أَوَائِلُهُمْ عَلَى بُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ فَيَشْرَبُونَ مَا فِيهَا ثُمَّ يَمُرُّ آخِرُهُمْ فَيَقُولُونَ لَقَدْ كَانَ فِي هَذَا مَاءٌ مَرَّةً وَيَحْضُرُ نَبِيُّ اللَّهِ وَأَصْحَابُهُ حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ لِأَحَدِهِمْ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمْ الْيَوْمَ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللَّهِ فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَيَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ فَلَا يَجِدُونَ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا قَدْ مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ وَنَتْنُهُمْ وَدِمَاؤُهُمْ فَيَرْغَبُونَ إِلَى اللَّهِ فَيُرْسِلُ عَلَيْهِمْ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَيْثُ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مَطَرًا لَا يُكِنُّ مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ فَيَغْسِلُهُ حَتَّى يَتْرُكَهُ كَالزَّلَقَةِ ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ أَنْبِتِي ثَمَرَتَكِ وَرُدِّي بَرَكَتَكِ فَيَوْمَئِذٍ تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنْ الرِّمَّانَةِ فَتُشْبِعُهُمْ وَيَسْتَظِلُّونَ بِقِحْفِهَا وَيُبَارِكُ اللَّهُ فِي الرِّسْلِ حَتَّى إِنَّ اللِّقْحَةَ مِنْ الْإِبِلِ تَكْفِي الْفِئَامَ مِنْ النَّاسِ وَاللِّقْحَةَ مِنْ الْبَقَرِ تَكْفِي الْقَبِيلَةَ وَاللِّقْحَةَ مِنْ الْغَنَمِ تَكْفِي الْفَخِذَ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ رِيحًا طَيِّبَةً فَتَأْخُذُ تَحْتَ آبَاطِهِمْ فَتَقْبِضُ رُوحَ كُلَّ مُسْلِمٍ وَيَبْقَى سَائِرُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ كَمَا تَتَهَارَجُ الْحُمُرُ فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ

مترجم:

4075.

حضرت نواس بن سمعان کلابی ؓ سے روایت ہے، ایک صبح رسول اللہ ﷺ نے دجال کا ذکر فرمایا، اس کی حقارت کا ذکر فرمایا اور اس کا عظیم (بڑا فتنہ) ہونا بیان فرمایا۔ (یا مطلب یہ ہے کہ تفصیل سے بیان کرتے ہوئے کبھی معمول کی آواز میں بیان فرمایا، کبھی آواز بلند فرمائی) حتی کہ ہمیں محسوس ہوا کہ وہ کھجور کے پتوں کے کسی جھنڈ میں ہے (اور ابھی نکلنے والا ہے)، جب ہم (اس کے بعد) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے ہماری یہ (خوفزدگی کی) کیفیت ملاحظہ فرمائی۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم لوگوں کو کیا ہوا‘‘ ؟ ہم نے کہا: اللہ کے رسولﷺ! آج صبح آپ نے دجال کا ذکر فرمایا۔ اس کی پستی اور بلندی کا ذکر فرمایا (یا آہستہ اور بلند آواز سے تنبیہ فرمائی) حتی کہ ہمیں محسوس کہ وہ کھجوروں کے جھنڈ میں ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’مجھے تمہارے بارے میں دجال سے زیادہ کسی اور چیز سے خطرہ ہے۔ اگر وہ اس وقت ظاہر ہوا جب کہ میں تمہارے اندر موجود ہوں تو تم سے پہلے میں اس کا مقابلہ کرلوں گا (دلائل کے ذریعے سے یا اس کے شعبدوں کی حقیقت ظاہر کر کے ہو) اور اگر وہ اس وقت ظاہر ہوا جب میں تمہارے اندر نہیں ہوں گا تو ہر شخص اپنا دفاع خود کرے گا اور میری عدم موجودگی میں اللہ ہر مسلمان کا مددگار ہے ۔ دجال گھنگریالے بالوں والا جوان ہے۔ اس کی آنکھ ابھری ہوئی ہے۔ وہ ایسا ہے کہ میں اسے عبدالعزیٰ بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں ۔ تم میں سے جو کوئی اسے دیکھے اس کے سامنے سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے۔ وہ شام اور عراق کے درمیان ایک راستے پر ظاہر ہوگا اوردائیں بائیں فساد پھیلائے گا۔ اللہ کے بندو! ثابت قدم رہنا۔‘‘ ہم نے کہا: اللہ کے رسولﷺ! وہ زمین میں کتناعرصہ رہے گا؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’چالیس دن (جن میں سے) ایک دن ایک سال کے برابر ہوگا۔ ایک دن ایک مہینے کے برابر، اور ایک دن ایک جمعہ (سات دن) کے برابر، اور باقی (سینتیس) دن تمہارے (عام )دنوں کی طرح ہوں گے۔‘‘ ہم نے کہا: اللہ کے رسول! وہ دن جو سال کے برابر ہوگا، کیا اس دن میں ہمیں ایک دن کی (صرف پانچ ) نمازیں کافی ہوں گی؟ آپﷺ نےفرمایا: ’’اس دن میں اس کی مقدار کے مطابق اندازہ کرلینا‘‘۔ ہم نےکہا: اللہ کے رسولﷺ! زمین میں اس (کے سفر کرنے) کی رفتار کتنی ہوگی؟ فرمایا: ’’جیسے بادل، جس کے پیچھے ہوا لگی ہوئی ہو (اور اسے اڑائے لئے جارہی ہو۔‘‘) نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ وہ کچھ لوگوں کے پاس آئے گا، انھیں (اپنی بات تسلیم کرنے کی) دعوت دے گا، وہ اس کی بات مان لیں گے اور (اس کے دعوے کو سچا مان کر) اس پر ایمان لے آئیں گے۔ وہ آسمان کوحکم دے گا کہ بارش برسائے توبارش ہوجائے گی۔ زمین کوحکم دے گا کہ فصلیں اگائے تووہ اگا دے گی۔ ان کے مویشی شام کو (چرچر کر) واپس آئیں گے توان کی کوہانیں انتہائی اونچی، ان کے تھن انتہائی بڑے (دودھ سے لبریز) اور ان کی کھوکھیں خوب نکلی ہوئی ہوں گی (خوب سیر ہوں گے ۔) پھر وہ کچھ (اور ) لوگوں کے پاس جائے گا، انھیں (اپنے دعویٰ پر ایمان لانے کی ) دعوت دے گا، وہ اس کی بات ٹھکرا دیں گے، وہ ان کے پاس سے چلا جائے گا۔ صبح ہوگی تو وہ لوگ قحط کا شکار ہوجائیں گے، ان کے پاس (مال، جانور وغیرہ ) کچھ نہیں رہے گا۔ پھر وہ ایک کھنڈر پر سے گزرے گا تو اے کہے گا: اپنے خزانے نکال دے۔ (فوراً زمین میں مدفون ) وہ (خزانے) شہد کی مکھیوں کی طرح اس کے پیچھے چل پڑیں گے۔ پھر وہ بھرپور جوانی والے ایک آدمی کو بلائے گا اور اسے تلورا کے ایک وار سے دوٹکڑے کردے گا۔ (ان ٹکڑوں کو ایک دوسرے سے اتنی دور پھینک دے گا)جتنی دور تیر جاتا ہے۔ پھر اسے بلائے گا تووہ (زندہ ہوکر) ہنستا ہوا آجائے گا، اس کاچہرہ (خوشی سے) دمک رہا ہوگا ۔ اسی اثنا میں اللہ تعالی حضرت عیسیٰ ابن مریم ؑ کو (زمین پر) بھیج دے گا۔ وہ دمشق کے مشرق کی طرف سفید مینار کے قریب نازل ہوں گے، انھوں نے ورس اور زعفران سے رنگے ہوئے دوکپڑے پہن رکھے ہوں گے، دو فرشتوں کے پروں پرہاتھ رکھے ہوئے ہوں گے۔ جب سرجھکائیں گے تو (پانی کے) قطرے ٹپکیں گے، جب سر اٹھائیں گے توموتیوں کی طرح قطرے گریں گے۔ جس کافر تک انکے سانس کی مہک پہنچے گی، وہ ضرور مر جائے گا۔ ان کے سانس کی مہک وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر پہنچے گی۔ پھر وہ (دجال کے تعاقب میں) روانہ ہوں گے حتی کے اسے لُد شہر کے دروازے پر جالیں گے اور قتل کردیں گے۔ پھر اللہ کے نبی عیسیٰ ؑ ان لوگوں کے پاس آئیں گے جنہیں اللہ نے (دجال کے فتنے میں مبتلا ہوکر گمراہ ہونے سے ) بچالیا ہوگا۔ ان کے چہروں سے غبار صاف کریں گے اور انھیں جنت میں انکے درجات سے آگاہ کریں گے۔ اسی اثنا میں اللہ تعالی حضرت عیسیٰ پر وحی نازل فرمائے گا: اے عیسیٰ ؑ! میں نے اپنے کچھ بندے ظاہر کئے ہیں، ان سے جنگ کرنے کی کسی میں طاقت نہیں، ان (مومنوں) کوحفاظت کے لئے ‘‘طور ’’ پر لے جائیے۔ تب اللہ تعالی یاجوج ماجوج کو چھوڑ دے گا۔ اوروہ جیساکہ اللہ نے فرمایا: ’’ہرٹیلے سے (اتر اترکر) بھاگے آرہے ہوں گے۔‘‘ ان کے پہلے لوگوں (ہجوم کے شروع کے حصے) کا گزر بحیرہ طبریہ سے ہوگا، وہ اس کاسارا پانی پی جائیں گے۔ جب انکے پچھلے افراد گزریں گے توکہیں گے: کبھی اس مقام پر پانی بھی ہوتا تھا۔ اللہ کے نبی عیسیٰ ؑ اور ان کے ساتھی (طُور ہی پر) موجود ہوں گے۔ (یاجوج ماجوج کی وجہ سے کہیں آ جا نہیں سکیں گے اس لئے خوراک کی شدید قلت ہوجائے گی) حتی کہ انھیں ایک بیل کا سر اس سے بہتر معلوم ہو گا جتنا تمہیں آج کل سو اشرفیوں کی رقم اچھی لگتی ہے۔ اللہ کے نبی عیسیٰ ؑ اور آپ کے ساتھی اللہ کی طرف توجہ فرمائیں گے (اور دعائیں کریں گے ۔) تب اللہ یاجوج ماجوج کی گردنوں میں کیڑے پیدا کردے گا، چنانچہ وہ سارے کے سارے ایک ہی بار مر جائیں گے۔ اللہ کے نبی عیسیٰ ؑ اور آپ کے ساتھی (پہاڑ سے) اتریں گے تودیکھیں گے کہ ایک بالشت جگہ بھی ایسی نہیں جو ان کی بدبو، ان کی سڑاند اور ان کے خون سے آلود نہ ہو۔ وہ اللہ کی طرف توجہ فرمائیں گے (اور دعائیں کریں گے ) تو اللہ ایسے پرندے بھیج دے گا جو بختی اونٹوں کی گردنوں کی طرح ہوں گے۔ وہ ان (کی لاشوں )کو اٹھا اٹھا کر جہاں اللہ چاہے پھینک دیں گے۔ پھر اللہ ان پر ایسی بارش نازل فرمائے گا جس سے نہ اینٹوں کے مکان میں بچاؤ ہوگا، نہ خیمے میں ۔ وہ (بارش ) زمین کو دھو کر آئینے کی طرح صاف کردے گی ۔ پھر زمین کوحکم ہوگا: اپنے پھل اگا، اور برکت دوبارہ ظاہر کردے۔ ان دنوں ایک جماعت ایک انار کھائے گی تو سب افراد سیر ہوجائیں گے اور اس کاچھلکا ان سب کو سایہ کرسکے گا۔ اللہ دودھ والے جانوروں میں اتنی برکت دے گا کہ ایک دودھ دینے والی اونٹنی سے ایک بڑی جماعت کا گزارا ہوجائے گا۔ اور ایک دودھ دینے والی گائے ایک قبیلے کے لئے کافی ہوگی۔ اور ایک دودھ دینے والی بکری ایک بڑے کنبے کوکافی ہوگی۔ وہ اسی انداز سے (خوش گوار اور بابرکت ایام گزار رہے ) ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان پر ایک خوش گوار ہوا بھیج دے گا۔ وہ ان کی بغلوں کے نیچے سے گزرے گی اور ہر مسلمان کی روح قبض کرلے گی ۔اور باقی ایسے لوگ رہ جائیں گے جو اس طرح (سرعام) جماع کریں گے جس طرح گدھے جفتی کرتے ہیں۔ انھی پر قیامت قام ہوگی۔ (صور پھونکنے پریہی لوگ مریں گے۔‘‘)