قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن ابن ماجه: كِتَابُ الزُّهْدِ (بَابُ الزُّهْدِ فِي الدُّنْيَا)

حکم : صحیح (الألباني)

4104. حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَبِي الرَّبِيعِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ اشْتَكَى سَلْمَانُ فَعَادَهُ سَعْدٌ فَرَآهُ يَبْكِي فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ مَا يُبْكِيكَ يَا أَخِي أَلَيْسَ قَدْ صَحِبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَيْسَ أَلَيْسَ قَالَ سَلْمَانُ مَا أَبْكِي وَاحِدَةً مِنْ اثْنَتَيْنِ مَا أَبْكِي ضِنًّا لِلدُّنْيَا وَلَا كَرَاهِيَةً لِلْآخِرَةِ وَلَكِنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا فَمَا أُرَانِي إِلَّا قَدْ تَعَدَّيْتُ قَالَ وَمَا عَهِدَ إِلَيْكَ قَالَ عَهِدَ إِلَيَّ أَنَّهُ يَكْفِي أَحَدَكُمْ مِثْلُ زَادِ الرَّاكِبِ وَلَا أُرَانِي إِلَّا قَدْ تَعَدَّيْتُ وَأَمَّا أَنْتَ يَا سَعْدُ فَاتَّقِ اللَّهَ عِنْدَ حُكْمِكَ إِذَا حَكَمْتَ وَعِنْدَ قَسْمِكَ إِذَا قَسَمْتَ وَعِنْدَ هَمِّكَ إِذَا هَمَمْتَ قَالَ ثَابِتٌ فَبَلَغَنِي أَنَّهُ مَا تَرَكَ إِلَّا بِضْعَةً وَعِشْرِينَ دِرْهَمًا مِنْ نَفَقَةٍ كَانَتْ عِنْدَهُ

سنن ابن ماجہ:

کتاب: زہد سے متعلق احکام و مسائل

تمہید کتاب (باب: دنیا سے بےرغبتی)

مترجم: ١. فضیلۃ الشیخ مولانا محمد عطاء اللہ ساجد (دار السلام)

4104.

حضرت انس ؓ سے روایت ہے، حضرت سلمان فارسی ؓ بیمار ہوگئے۔ حضرت سعد ؓ انکی عیادت کے لئے گئے تودیکھا کہ وہ رورہے ہیں۔ حضرت سعد ؓ نے کہا: بھائی جان! آپ کیوں رورہے ہیں؟ کیا آپ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نہیں رہے؟ کیا آپ نے فلاں کام نہیں کیا؟ فلاں کارنامہ انجام نہیں دیا؟ حضرت سلمان ؓ نے کہا: میں دو چیزوں میں سے کسی ایک پر بھی نہیں رورہا۔ میں نہ دنیا کے چھوٹنے کی وجہ سے روتا ہوں، نہ آخرت کو ناپسند کرتے ہوئے ۔ لیکن (میں اس لئے اشکبار ہوں کہ ) رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ایک وعدہ لیاتھا ۔اور میں سمجھتاہوں کہ میں نے اس سے تجاوز کیا ہے۔ انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے آپ سے کیا وعدہ لیاتھا؟فرمایا: آپﷺ نے مجھ سے فرمایا تھا: ’’آدمی کواتنا کچھ کافی ہوتاہے جتنا مسافر کا زادِ راہ۔‘‘ اور مجھے یقین ہے کہ میں (اس ) حد سے تجاوز کرگیا ہوں ۔اور اے سعد! آپ جب (کسی جھگڑےکا) فیصلہ کریں تواپنے فیصلے میں اللہ کا خوف پیش نظر رکھیں۔ اور جب (مستحقین میں کوئی چیز) تقسیم کریں تو تقسیم کے وقت (تقوی کوملحوظ رکھیں۔) اور جب آپ (کسی پروگرام کے بارے میں) سوچیں (یاارادہ کریں) تواپنی سوچ میں (اور ارادے میں اللہ سے ڈریں۔) حضرت ثابت ؓ بیان کرتے ہیں: مجھے معلوم ہوا کہ انھوں نے ترکے میں صرف تقریباً بیس دینار چھوڑے جو انکے ذاتی اخراجات کے لئے تھے۔