تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) رسول اللہ ﷺ کو لوگوں کی ہدایت کا اتنا خیال تھا کہ اس کےلیے بعض ایسی شرائط بھی تسلیم کرنے کا سوچا جو حقیقت میں آپ کو انتہائی ناگوار تھیں۔
(2) اللہ تعالی مخلص مومنوں کی خواہشات پوری فرمادیتا ہے۔
(3) اگر چہ زبانی معاہدہ بھی واجب العمل ہوتا ہے تاہم لکھ لینا بہتر ہے۔
(4) اس واقعہ سے قدیم الاسلام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا مقام اوران کی عظمت واضح ہے۔
(5) پہلے اسلام لانے والے صحابہ بعد میں اسلام لانے والے صحابہ سے افضل ہیں تاہم بعد والے بھی واجب الاحترام ہیں اور تابعین سے افضل ہیں۔
(6) مربی اور معلم کو چاہیے کہ مخلص ساتھیوں کے جذبات کا خیال رکھے۔
(7) رسول اللہ ﷺ قرآن مجید کے ہر حکم پر پوری طرح عمل فرماتے تھے اگرچہ وہ عام لوگوں کی نظر میں معمولی حکم ہوتا ہے۔
(8) رسول اللہ ﷺ کا پہلا معمول بھی درست تھا کہ جب ضرورت محسوس فرماتے مجلس سے اٹھ جاتے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بیٹھے رہتے تاکہ نبیﷺ سے سیکھے ہوئے مسائل یاد کریں اور ایک دوسرے سے وہ احادیث سنیں جو براہ راست رسول اللہ ﷺ سے نہیں سنی ہوئی تھیں۔
(9) بعد میں رسول اکرم ﷺ کو حکم دیا گیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو زیادہ سے زیادہ استفادے کا موقع عنایت فرمائیں اس لیے رسول اللہ ﷺ زیادہ دیر تک تشریف رکھتے تھے۔
(10) صحابہ کرام نے محسوس کیا کہ نبی ﷺکو اس طرز عمل سے مشقت اٹھانی پڑتی ہےاس لیے وہ خود ہی مناسب وقت پر مجلس برخاست کردیتے تھےتاکہ آپ کو آرام واستراحت اور دوسرے ذاتی امور کے لیے کافی وقت مل سکے۔استاد کو چاہیےکہ طلبہ كو زیادہ سے زیادہ استفادے کا موقع دے لیکن طلبہ کو بھی چاہیے کہ وہ استاد پر زیادہ بوجھ نہ ڈالیں۔
(11) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد اور متابعات کی بنا پرحسن اور صحیح قراردیا ہے۔ ان شواہد اور متابعات کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے نیز آئندہ آنے والی روایت میں بھی مختصراً اسی واقعے کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحیح السیرۃ النبوية للألباني:222، 224 الموسوعه الحديثية مسند الإمام أحمد:7/ 93،92)