قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن ابن ماجه: كِتَابُ الزُّهْدِ (بَابُ مُجَالَسَةِ الْفُقَرَاءِ)

حکم : صحیح 

4127. حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنْقَزِيُّ حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ عَنْ السُّدِّيِّ عَنْ أَبِي سَعْدٍ الْأَزْدِيِّ وَكَانَ قَارِئَ الْأَزْدِ عَنْ أَبِي الْكَنُودِ عَنْ خَبَّابٍ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى وَلَا تَطْرُدْ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ إِلَى قَوْلِهِ فَتَكُونَ مِنْ الظَّالِمِينَ قَالَ جَاءَ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ التَّمِيمِيُّ وَعُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ فَوَجَدَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ صُهَيْبٍ وَبِلَالٍ وَعَمَّارٍ وَخَبَّابٍ قَاعِدًا فِي نَاسٍ مِنْ الضُّعَفَاءِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ فَلَمَّا رَأَوْهُمْ حَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقَرُوهُمْ فَأَتَوْهُ فَخَلَوْا بِهِ وَقَالُوا إِنَّا نُرِيدُ أَنْ تَجْعَلَ لَنَا مِنْكَ مَجْلِسًا تَعْرِفُ لَنَا بِهِ الْعَرَبُ فَضْلَنَا فَإِنَّ وُفُودَ الْعَرَبِ تَأْتِيكَ فَنَسْتَحْيِي أَنْ تَرَانَا الْعَرَبُ مَعَ هَذِهِ الْأَعْبُدِ فَإِذَا نَحْنُ جِئْنَاكَ فَأَقِمْهُمْ عَنْكَ فَإِذَا نَحْنُ فَرَغْنَا فَاقْعُدْ مَعَهُمْ إِنْ شِئْتَ قَالَ نَعَمْ قَالُوا فَاكْتُبْ لَنَا عَلَيْكَ كِتَابًا قَالَ فَدَعَا بِصَحِيفَةٍ وَدَعَا عَلِيًّا لِيَكْتُبَ وَنَحْنُ قُعُودٌ فِي نَاحِيَةٍ فَنَزَلَ جِبْرَائِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فَقَالَ وَلَا تَطْرُدْ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنْ الظَّالِمِينَ ثُمَّ ذَكَرَ الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ وَعُيَيْنَةَ بْنَ حِصْنٍ فَقَالَ وَكَذَلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِيَقُولُوا أَهَؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِنَا أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ ثُمَّ قَالَ وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ قَالَ فَدَنَوْنَا مِنْهُ حَتَّى وَضَعْنَا رُكَبَنَا عَلَى رُكْبَتِهِ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْلِسُ مَعَنَا فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَقُومَ قَامَ وَتَرَكَنَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ وَلَا تُجَالِسْ الْأَشْرَافَ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا يَعْنِي عُيَيْنَةَ وَالْأَقْرَعَ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا قَالَ هَلَاكًا قَالَ أَمْرُ عُيَيْنَةَ وَالْأَقْرَعِ ثُمَّ ضَرَبَ لَهُمْ مَثَلَ الرَّجُلَيْنِ وَمَثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا قَالَ خَبَّابٌ فَكُنَّا نَقْعُدُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا بَلَغْنَا السَّاعَةَ الَّتِي يَقُومُ فِيهَا قُمْنَا وَتَرَكْنَاهُ حَتَّى يَقُومَ

مترجم:

4127.

حضرت ابوکنود (عبداللہ بن عامر) ازدی نے حضرت خباب سے روایت کرتے ہوئے اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں یہ حدیث بیان فرمائی: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِم مِّن شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴾ ’’اور ان لوگوں کو اپنے رب سے دور مت کریں جو اپنے پروردگار کو صبح و شام پکارتے (اور اس کی عبادت کرتے) ہیں۔ وہ اپنے رب کا چہرہ (رضامندی) چاہتے ہیں۔ ان کے حساب میں سے کسی چیز کا بوجھ ان پر نہیں، پھر اگر آپ ان کو اپنے سے دُور کریں گے تو آپ ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔‘‘ حضرت اقرع بن حابس تمیمی اور حضرت عیینہ بن محصن فزاری ؓ آئے تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کمزور (نادار) مسلمانوں کی جماعت میں حضرت صہیب، حضرت بلال، حضرت عمار اور حضرت خباب ؓ اور ایسے ہی کچھ دوسرے غریب اور کمزور مومنوں کے ساتھ تشریف فرما ہیں۔ جب انہوں  نے ان حضرات کو نبی ﷺ کے اردگرد بیٹھے دیکھا تو انہیں حقیر جانا۔ انہوں نے نبی ﷺ سے تنہائی میں بات کی اور کہا: ہم چاہتے ہیں کہ آپﷺ ہمارے ساتھ (الگ سے) تشریف رکھیں تاکہ اہل عرب کو ہماری فضیلت (اور بلند مقام) کا پتہ چلے کیونکہ آپﷺ کے پاس عرب (کے مختلف علاقوں) کے وفد آتے ہیں، اور ہمیں اس بات سے شرم محسوس ہوتی ہے کہ عرب کے لوگ ہمیں ان غلاموں کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھیں، اس لئے جب ہم آپﷺ کے پاس آیا کریں تو آپ انہیں اپنے پاس سے اٹھا دیا کریں، جب ہم فارغ ہو جائیں تو پھر آپ چاہیں تو ان کے ساتھ بھی تشریف رکھیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ٹھیک ہے‘‘ انہوں نے کہا: ہمیں (اس معاہدے کی) ایک تحریر لکھ دیجیے۔ نبی ﷺ نے لکھنے کا سامان طلب فرمایا، اور لکھنے کے لئے حضرت علی ؓ کو بلا لیا۔ ہم (غریب مسلمان) ایک طرف بیٹھے تھے۔ اتنے میں جبریل ؑ اترے اور (وحی کی آیات سناتے ہوئے فرمایا: ﴿وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الظَّالِمِينَ﴾ پھر اقرع بن حابس اور عیینہ بن حصن ؓ کا ذکر کیا (جو اس وقت غیر مسلم تھے) اور فرمایا: ﴿وَكَذَٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لِّيَقُولُوا أَهَـٰؤُلَاءِ مَنَّ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَا ۗ أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ﴾ ’’اور اسی طرح ہم نے بعض کو بعض کے ذریعے سے آزمائش میں ڈالا ہے تاکہ وہ لوگ (انہیں دیکھ کر) کہیں: کیا ہم میں سے یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے احسان کیا ہے؟ کیا اللہ اپنے شکر گزار بندوں کو (ان سے) زیادہ نہیں جانتا؟‘‘ پھر فرمایا: ﴿وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔الرَّحْمَةَ﴾ ’’اور جب آپ کے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو کہہ دیجیے تم پر سلام ہو۔ تمہارے رب نے مہربانی کو اپنے ذمے لازم کر لیا ہے‘‘ حضرت خباب ؓ بیان کرتے ہیں: چنانچہ ہم لوگ نبی ﷺ کے قریب آ گئے حتی کہ ہم نے آپ کے گھٹنوں سے اپنے گھٹنے ملا دیئے۔ پھر (یہ کیفیت ہو گئی کہ) رسول اللہ ﷺ ہمارے ساتھ (کافی دیر تک) بیٹھے رہتے۔ پھر جب آپ اُٹھنا چاہتے تو تشریف لے جاتے اور ہمیں بیٹھنے رہنے دیتے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿وَاصْبِرْ نَفْسَكَ ۔۔۔۔ فُرُطًا﴾ ’’اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ روکے رکھیئے جو صبح شام اپنے رب کو پکارتے ہیں۔ وہ اس کی رضا کے طالب ہیں۔ آپ کی نظریں انہیں چھوڑ کر دوسرے لوگوں کی طرف نہ جائیں (ان سرداروں کے ساتھ نہ بیٹھیں) کہ آپ دنیا کی زندگی کی زینت چاہنے لگیں۔ اور آپ اس شخص کی بات نہ مانیں جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے۔ (عیینہ اور اقرع وغیرہ کی) اور جو اپنی خواہش کے پیچھے چلتا ہے، اور اس کا معاملہ حد اعتدال سے ہٹا ہوا ہے (ہلاکت کا باعث ہے’’)۔ صحابی بیان کرتے ہیں: اس سے مراد عیینہ اور اقرع کا معاملہ ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دو آدمیوں کا واقعہ بیان فرمایا اور دنیا کی زندگی کی مثال بیان فرمائی۔ حضرت خباب ؓ نے کہا: (اس کے بعد) ہم نبی ﷺ کے ساتھ بیٹھتے تھے لیکن جب وہ وقت آتا جو نبی ﷺ کے اٹھنے کا (روزمرہ کا) ہوتا تھا تو ہم خود ہی نبی ﷺ کو چھوڑ کر اٹھ جاتے تھے تاکہ آپﷺ بھی تشریف لے جا سکیں۔