تشریح:
(1) ہمارے فاضل محقق نے اس روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہےاور مزید لکھا ہے کہ اگلی روایت اس سے کفایت کرتی ہے علاوہ ازیں شیخ البانی ؒ نے اس روایت کو صحیح قراردیا ہے۔ دیکھیے: (الروض النضير في الترتيب وتخريج معجم الطبراني الصغير رقم:٤٧٥) بہرحال یہ روایت قابل حجت ہے۔
(2) امام ابن اثیر نے اپنی کتاب النهايه میں خلال كی وضاحت یوں فرمائی ہے: (اَلتَّخْلِيْلُ تَفْرِيْقُ شَعْرِ اللِّحْيَةِ وَاَصَابِعَ الْيَدَيْنِ وَالرِّجْلَيْنِ فِي الْوُضُوءِ) (النهاية في غريب الحديث والأثر:73/2 ، مادة ’’خلل‘‘) خلال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وضو میں ڈاڑھی کے بالوں اور ہاتھوں پاؤں کی انگلیوں میں ہاتھ کی انگلیاں پھیرنا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ پانی اعضائےوضو کے زیادہ سے زیادہ حصوں تک پہنچ جائے۔
(3) امام ابن قیم ؒ نے فرمایا: نبی ﷺ کبھی کبھی ڈاڑھی کا خلال کرتے اور اس پر پابندی نہیں فرماتے تھے۔۔۔ اسی طرح انگلیوں کے خلال میں بھی آپﷺ دوام نہیں فرماتے تھے۔ (زادالمعاد:1؍68، طبع مصر، فصل في هدية في الوضوء) لیکن انھوں نے کبھی کبھی کرنے کی کوئی دلیل ذکر نہیں کی بلکہ بعض روایات میں حکم بھی ملتا ہے جس سے دوام کا پہلو راجح معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم