تشریح:
فوائد ومسائل:
(1) نبی ﷺ نے اپنی خوبیاں خود بیان فرمائی ہیں کیونکہ ان کا تعلق مستقبل سے ہے۔ جو بتائے بغیر معلوم نہیں ہو سکتیں۔
(1) ان خصائص کے بیان کرنے کا مقصد حقیقت حال سے آگاہ کرنا ہے اظہار فخر نہیں۔
(3) بعض حالات میں اپنی خوبیاں بیان کرنے کی ضرورت پیش آجاتی ہے جیے یوسف علیہ سلام نے فرمایا تھا ﴿اِجْعَلْنِی عَلٰی خَزَآئنِ الْأَرْضِ اِنِّی حَفِیْظٌ عَلِیْم﴾ (یوسف:۱۲: ۵۵) ’’آپ مجھے زمین کے خزانوں کا مالک مقرر کر دیجیے میں حفاطت کرنے والا اور با خبر ہوں۔‘‘ یہ ممنوعہ خود ستائی میں شامل نیہں ۔
(4) نبیﷺ تمام انسانوں کے سردار ہیں یعنی حضرت آدم علیہ سلام سے لیکر قیامت تک پیدا ہونے والےتمام انسانوں میں سب سے افضل ہیں چناچہ تمام انبیاء اور رسولوں سے بھی افضل ہیں اسی لیے جنت کا مقم وسیلہ اور محشر میں مقام محمود رسولﷺ کےلیے مخصوص ہیں۔
(5) جھنڈا بھی قیادت کی علامت ہے۔ رسول کا جھنڈا ’’حمد کا جھنڈا‘‘ (لواء الحمد) ہیں۔ سب کائنات نبیﷺ کی تعریف کرے گئی جبکہ رسولﷺ اللہ تعالی کی حمد و ثناء فرمائے گے۔
(6) قبروں سے اٹھنا قیامت کی ابتداء ہے اور جنت میں داخلہ اس سلسلے کی انتہا ہے۔ نبیﷺ کو ان دونوں میں اولیت کا شرف حاصل ہے کہ دوبارہ زندہ ہوکہ قبروں سے اٹھنے میں بھی نبی کو اولیت حاصل ھوگی اور جنت کا دروازہ بھی آپﷺ کے لیے کھولا جائے گا۔
(7) قیامت کے دن شفاعت اللہ تعالی کی اجازت سے ہوگی نبیﷺ عرش کے نیچے تشریف لے جاکر ایک طویل سجدہ کریں گے اور اللہ تعالی کی وہ تعریفیں کریں گے جو پہلے نہ کبھی کی ہوگی تب رسولّ کو شفاعت کی اجازت دی جاےگی۔ اور وہ شفاعت قبول بھی کی جائےگی۔ نبیﷺ کے بعد دوسرے انبیاء علیہم السلام پھر شہداء، حفاظ کرام اور دوسرے نیک لوگ درجہ بدرجہ اللہ تعالی سے شفاعت کریں گے۔
(8) ان تمام تفصیلات پہ ایمان لانا آخرت پہ لانے میں شامل ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 4 / 99 :
قلت : جاء من طرق :
1 - رواه ابن سعد ( 1 / 20 ) : أخبرنا محمد بن مصعب القرقساني أخبرنا الأوزاعي
عن يحيى بن أبي كثير عن أبي سلمة بن عبد الرحمن عن أبي هريرة قال :
و أخبرنا الحكم بن موسى أخبرنا هقل بن زياد عن الأوزاعي حدثني أبو عمار حدثني
عبد الله بن فروخ قال : حدثني أبو هريرة قال : فذكره مرفوعا .
قلت : و السند الثاني صحيح على شرط مسلم ، و قد أخرجه ( 7 / 59 ) بأتم منه و قد
خرجته في " شرح الطحاوية " ص ( 107 ) .
2 - و أخرجه الحاكم ( 2 / 604 - 605 ) من طريق عبيد بن إسحاق العطار حدثنا
القاسم بن محمد بن عبد الله بن محمد بن عقيل حدثني أبي : حدثني أبي عن جابر
ابن عبد الله مرفوعا به . و قال : " صحيح الإسناد " . و رده الذهبي بقوله : "
قلت : لا و الله ، و القاسم متروك تالف ، و عبيد ضعفه غير واحد و مشاه أبو حاتم
" .
3 - و أخرجه البخاري في " التاريخ " ( 4 / 1 / 400 ) عن لبيد بن حيان أبي جندل
سمع معبد بن هلال سمع أنسا عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : فذكره .
و رجاله ثقات غير لبيد هذا ، ترجمه ابن أبي حاتم ( 3 / 2 / 181 ) ترجمة مختصرة
و لم يذكر فيه جرحا و لا تعديلا . لكن له طريق أخرى عند الدارمي ( 1 / 27 )
و أحمد ( 3 / 144 ) من طريق عمر بن أبي عمرو عن أنس مرفوعا بلفظ : " إني لأول
الناس تنشق الأرض عن جمجمتي يوم القيامة و لا فخر ، و أعطى لواء الحمد و لا فخر
و أنا سيد الناس يوم القيامة و لا فخر و أنا أول من يدخل الجنة يوم القيامة
و لا فخر و إني آتي باب الجنة فآخذ بحلقها .. " الحديث .
قلت : و سنده جيد ، رجاله رجال الشيخين .
4 - و عن علي بن زيد بن جدعان عن أبي نضرة عن أبي سعيد مرفوعا به نحوه .
أخرجه أحمد ( 3 / 2 ) و الترمذي ( 4 / 140 ) و ابن ماجة ( 2 / 581 - 582 )
و قال الترمذي : " حديث حسن " .
قلت : ابن جدعان فيه ضعف ، فحديثه حسن في الشواهد .
5 - عن عبد الله بن سلام مرفوعا مثل حديث أبي سعيد . أخرجه ابن حبان في "
صحيحه " ( 2127 - موارد ) .
قلت : و إسناده صحيح .