تشریح:
(1) قرآن مجید کی بعض آیات احکام پر مشتمل ہیں جو واضح ہیں، یا صحیح احادیث سے ان کی وضاحت ہو جاتی ہے اور ان پر عمل کرنے میں کوئی مشکل نہیں، اس طرح کی سب آیات محکم ہیں۔ بعض آیات کا تعلق عقائد سے ہے، مثلا توحید، رسالت، قیامت وغیرہ۔ قرآن مجید اور احادیث میں ان کی تفصیل موجود ہے اور ان کے دلائل بھی مذکور ہیں، یہ بھی محکم ہیں۔ اس کے برعکس بعض آیات ایسی بھی ہیں جن کا واضح مفہوم متعین نہیں کیا جا سکتا، مثلا حروف مقطعات۔ ان پر اس حد تک ایمان لانا کافی ہے کہ یہ بھی قرآن کا جزء ہیں اور اللہ کا کلام ہیں جن کی تلاوت پر اسی طرح ثواب ملتا ہے جس طرح دوسری آیات کی تلاوت باعث ثواب ہے۔ اس سے زیادہ جستجو کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح وہ معاملات جن کا تعلق عالم غیب سے ہے ان پر بھی اسی انداز سے ایمان لانا کافی ہے کہ یہ اشیاء یقینا موجود ہیں، یا یہ حالات یقینا پیش آنے والے ہیں اور ان کی جو تفصیلات قرآن و حدیث میں مذکور ہیں، وہ ہمارے لیے کافی ہیں، اس سے زیادہ تحقیق و تفتیش کی ضرورت نہیں، مثلا فرشتے اللہ کی ایک اطاعت گزار مخلوق ہیں جو اپنے اپنے متعین دائرہ کار میں مصروف عمل ہیں۔ یا قیامت کے دن بندوں کے اعمال کا وزن ہو گا۔ اس پر ایمان لانا چاہیے۔ یہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں کہ اعمال تو غیر مادی اشیاء ہیں اور وزن مادی اشیاء کا ہوتا ہے ۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے جس طرح کے ترازو سے چاہے گا ان کو وزن کر لے گا۔ اسی طرح عذاب قبر کا تعلق بھی عالم غیب سے ہے۔ اس لیے یہ اعتراض بے جا ہے کہ ہمیں کافروں اور بدکاروں کی قبروں میں عذاب کے آثار نظر نہیں آتے اور نیک لوگوں کی قبروں میں نعمت کے آثار نظر نہیں آتے۔ ان مسائل میں جتنی زیادہ بحث و تمحیص کی جائے، لغزش کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں، لہٰذا ان پر مجمل ایمان کافی ہے۔
(2) متشابہات میں بلاضرورت بحث سے پرہیز ہی علمائے حق کا طریقہ ہے۔
(3) اس قسم کے معاملات کو زیر بحث لانے سے فتنے کے دروازے کھلتے ہیں، لہذا جو لوگ اس قسم کے مباحث چھیڑیں ان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے تاکہ وہ عوام کے ایمان کے لیے خطرہ نہ بنیں۔