تشریح:
(1) (قلة) بڑے مٹکے کو کہتے ہیں۔ عرب میں مقام ہجر کے بنے ہوئے مٹکے معروف تھے۔ یہ مٹکا اتنا بڑا ہوتا تھا کہ اس میں ڈھائی مشکیں پانی آتا تھا، اس لیے دو مٹکوں کی مقدار پانچ مشک پانی کے برابر ہے۔ علمائے کرام نےدو مٹکے پانی کی مقدارپانچ سو رطل بیان کی ہے۔ ایک رطل آدھ سیر یعنی چالیس تولے کے برابر ہے۔ اس طرح پانچ مشک پانی کی مقدار تقریباً دوسو چالیس کلو گرام یا بعض حضرات کے نزدیک دو سو ستائیس کلو گرام بنتی ہے۔ یعنی اگر کسی تالاب میں اندازاً اس قدر پانی موجود ہوتو اس میں سے پانی لیکر وضو وغیرہ کرلینا چاہیے۔
(2) بعض حضرات نے (قلة) كا مطلب پہاڑ کی چوٹی کیا ہے۔ ان کے خیال میں اس سے پانی کی کوئی خاص مقدار مراد نہیں بلکہ بہت زیادہ پانی مراد ہے گویا وہ اتنا زیادہ ہے کہ پہاڑ کی چوٹی ڈوب جائے۔ یہ مطلب اس لیے درست نہیں کہ سوال ان تالابوں کے بارے میں ہے جو میدان میں بارش وغیرہ کے پانی سے بن جاتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی مقدار کو پہاڑوں سے تشبیہ دی جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر حدیث کا مقصد یہی ہوتا تو نبیﷺ مطلقاً منع فرما دیتے کہ ان چشمون اور تالابوں سے وضو نہ کیا کرو کیونکہ ان کے ناپاک ہونے کا احتمال ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ اگر مراد محض کثرت ہوتی تو یہ کہا جاتا کہ پہاڑ جتنا پانی۔ دو کا عدد واضح کرتا ہےکہ اس سے خاص مقدار مراد ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ پہاڑ سے تشبیہ بلندی میں دی جا سکتی ہے گہرائی کے لیے پہاڑ سے تشبیہ دینا قرین قیاس نہیں۔
(3) بعض روایات میں اس حدیث کے یہ لفظ ہیں: (لَمْ يَحْمِلِ الْخَبَثَ) ’’وہ ناپاکی کا حامل نہیں ہوتا‘‘ (جامع الترمذی، الطھارۃ، باب:50 حدیث:67) بعض حضرات نے اس کی یہ تشریح کی ہے کہ اس مقدار میں پانی نجاست کا متحمل نہیں ہوتا یعنی ناپاک ہوجاتا ہے۔ زیر بحث حدیث کے الفاظ سے اس تاویل کی غلطی ظاہر ہوتی ہےاور اصل معنی متعین ہوجاتا ہے۔ وہ یہ کہ اتنا پانی کثیر (زیادہ) پانی کے حکم میں ہوتا ہے لہذا تھوڑی نجاست سے اس کے پاک صاف ہونے کی صفت ختم نہیں ہوجاتی.
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وكذا قال الحاكم، ووافقه
الذهبي. وقال ابن منده: إنه على شرط مسلم، وصححه أيضا الطحاوي وابن
خزيمة وابن حبان والنووي والحافظ) .،
إسناده: حدثنا مممد بن العلاء وعثمان بن أبي شيبة والحسن بن علي
وغيرهم قالوا: ثنا أبو أسامة عن الوليد بن كثير عن محمد بن جعفر بن. الزبير عن
(1/104)
عبد الله بن عبد الله بن عمر. قال أبو داود: وهذا لفظ ابن العلاء. وقال عثمان
والحسن بن علي: عن محمد بن عباد بن جعفر. قال أبو داود: وهو الصواب!
كذا قال المصنف رحمه الله! وخالفه غيره فقال: الصواب: عن محمد بن
جعفر بن الزبير.
وسيأتي تحقيق الكلام في ذلك، وأن الراجح لدينا صواب الروايتين.
وعلى كل حال؛ فالإسناد صحيح، رجاله- على الوجهين- ثقات رجال
الشيخين.
والحديث أخرجه النسائي والدارمي والطحاوي والدارقطني والحاكم، والبيهقي
(2/260) من طرق عن أبي أسامة حماد بن أسامة... به مثل رواية ابن العلاء.
ثمّ أخرجه الدارقطني والحاكم والبيهقي من طرق أخرى كثيرة عن أبي
أسامة... به؛ إلا أنهم قالوا: عن محمد بن عباد بن جعفر.
وصوّب هذه الرواية المؤلف كما سلف.
وخالفه أبو حاتم الرازي فرجح الأولى، فقال ابنه عبد الرحمن في العلل
(1/44/رقم 96) - بعد أن ساق الحديث على الوجه الثاني-:
فقال أبي: محمد بن عباد بن جعفر ثقة، ومحمد بن جعفر بن الزبير ثقة،
والحديث لمحمد بن جعفر بن الزبير أشبه . وقال ابن منده- كما فى نصب الراية
(1/106) -:
إن هذا هو الصواب؛ لأنّ عيسى بن يونس رواه عن الوليد بن كثير عن
محمد بن جعفر بن الزبير عن عبيد الله بن عبد الله بن عمر .
وصحح الروايتين: الدارقطني والحاكم والبيهقي؛ بدليل ما أخرجوه من طريق
(1/105)
شعيب بن أيوب: ثنا أبو أسامة: ثنا الوليد بن كثير عن محمد بن جعفر بن الزبير
ومحمد بن عباد بن جعفر عن عبد الله بن عبد الله بن عمر... قال الحاكم
- ووافقه الآخران على معناه-:
قد ظهر بهذه الرواية صحة الحديث، وظهر أن أبا أسامة ساق الحديث عن
الوليد بن كثير عنهما جميعاً؛ فإن شعيب بن أيوب الصرِيفيني ثقة مأمون،
وكذلك الطريق له .
وبذلك يزول الاضطراب الذي به أعل بعضهم الحديث فلا تلتفت إليه.
والحديث صححه الحاكم على شرطهما، ووافقه الذهبي. وقال ابن منده: إنه
صحيح على شرط مسلم .
وصححه أيضا ًالطحاوي- كما قال ابن القيم في تهذيب السنن (1/56) -،
وابن خزيمة وابن حبان- كما في البلوغ -، وصححه النووي في المجموع
(1/113) ، والحافظ في الفتح (1/277) .
ولأبي أسامة- هذا- حديث آخر يعارض عمومه مفهم هذا الحديث؛ فانظر
(رقم 59) .
والحديث أخرجه الدارقطني (8) من طريق محمد بن وهب السلمي: نا ابن
عياش عن محمد بن إسحاق عن الزهري عن عبيد الله بن عبد الله عن أبي هريرة
عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
أنه سُئل عن القَلِيبِ يلقى فيه الجيف، ويشرب منه للكلاب والدواب؟
فقال:
ما بلغ الماء قلتين فما فوق ذلك؛ لم ينجسه شيء . وقال:
(1/106)
كذا رواه محمد بن وهب عن إسماعيل بن عياش بهذا الإسناد. والمحفوظ:
عن ابن عياش عن محمد بن إسحاق عن محمد بن جعفر بن الزبير عن عبيد الله
ابن عبد الله بن عمر عن أبيه .
قلت: وابن عياش ضعيف في روايته عن الحجازيين، وهذه منها، وقد زاد في
متن الحديث ما ليس فيه:
فما فوق ذلك .
(قلت: إسناده حسن صحيح) .
إسناده: حدثنا موسى بن إسمماعيل: ثنا حماد. (ح) وثنا أبو كامل: ثنا
يزيد بن زُربع عن محمد بن إسحاق عن محمد بن جعفر- قال أبو كامل:- ابن
الزبير.
وهذا إسناد حسن صحيح، رجاله كلهم ثقات معروفون، وعبيد الله بن
عبد الله: هو أخو عبد الله بن عبد الله المذكور في السند السابق، وكلاهما ثقة.
والحديث أخرجه الترمذي وابن ماجه والدارمي والطحاوي والدارقطني والحاكم
والبيهقي، وأحمد (2/12 و 26- 27، 38) من طرق عن ابن إسحاق... به؛
وصرح ابن إسحاق بسماعه من محمد بن جعفر في رواية للدارقطني.
وقد تابعه عاصم بن المنذر عن عبيد الله؛ وهو: