تشریح:
(1) امام ابو داؤد ؒ اور بعض دیگر علماء نے اس حدیث کو معلول قراردیا ہے لیکن امام ترمذی ؒ اور بعض دیگر علماء نے اسے صحیح قراردیا ہے۔ تنقید کرنےوالے علماء نے فرمایا ہے کہ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے موزوں پر مسح کرنے کی روایت صحیح ہے۔ مصر کے مشہور عالم الشیخ احمد محمد شاکر ؒ نے فرمایا ہے کہ یہ تنقید درست نہیں کیونکہ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے ان کے شاگردوں نے ان کی مختلف احادیث روایت کی ہیں۔ کسی نے موزوں پر مسح کی حدیث روایت کی کسی نے عمامہ پر مسح کی اور کسی نے جرابوں پر مسح کی۔یہ سب احادیث صحیح ہیں۔ انھیں ایک دوسرے کے خلاف قرار دے کر بعض کو راوی کی غلطی قرار ینا درست نہیں۔ (جامع الترمذی، الطھارۃ، باب ماجاء فی المسح علی الجوربین والنعلین، حدیث:99 حاشیہ از احمد محمد شاکر)
(2) امام ابوداؤد ؒ کہتے ہیں : حضرات علی بن ابو طالب ؓ، عبداللہ بن مسعود ؓ، براء بن عازب ؓ، انس بن مالک ؓ، ابو امامہ ؓ، سہل بن سعد ؓ، عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ جرابوں پر مسح کرتے تھے۔ حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ (سنن ابو داود، الطھارۃ، باب المسح علي الجوربين، حديث:195)
(3) امام دولابی نے (الکنٰی والأسماء:1؍88) میں سند کے ساتھ حضرت ازرق بن قیس ؒسےروایت کیا ہےکہ انھوں نے فرمایا: میں نے حضرت انس بن مالک ؓ کو دیکھا کہ انھیں وضو کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے چہرہ اور بازو دھوئےاور اون کی جرابوں پر مسح کیا۔ میں نے کہا :کیا آپ ان پر مسح کرتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: یہ بھی موزے ہیں لیکن اون کے بنے ہوئے ہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے واضح کیا کہ جرابوں پر خف (موزے) کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے یعنی ان کے فرمان کے مطابق عربی زبان میں ’’خف‘‘ سے مراد وہ لباس ہوتا ہے جس سے پاؤں چھپ جائیں خواہ وہ چمڑے ے موزے ہوں یا اونی سوتی جرابیں۔ (مزید تفصیل کے لیے جامع الترمذی کے مذکورہ بالا باب پر علامہ احمد شاکر کا حاشیہ ملاحظہ کیجیے)
(4) اہل عرب کے جوتے کھلے ہوتے تھے۔ جوتے کے تلے پر صرف چمڑے کے ایک یا دو باریک ٹکڑے ہوتے تھے لہٰذا جرابوں پر مسح کرنے کے لیے جوتے اتارنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ ہوائی چپل وغیرہ کی صورت میں اس حدیث پر عمل کیا جاسکتا ہے۔
(5) روایت کا مطلب جرابوں اور جوتوں پر الگ الگ مسح کرنا بھی ہے یعنی آپ ﷺ نے صرف جرابوں پر مسح کیا اور بعض دفعہ صرف بند جوتوں پر مسح کیا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري، وصححه ابن حبان، وقال
الترمذي: إنه حديث حسن صحيح ، واحتج به ابن حزم)
إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة عن وكيع عن سفيان الثوري عن أبي
قيس الآوْدِي عن هزيل بن شرحبيل عن المغيرة بن شعبة.
(1/274)
وهذا إسناد صحيح على شرط البخاري.
والحديث أخرجه أحمد (4/252) : ثنا وكيع... به.
وكذلك أخرجه الترمذي. وابن ماجه عن وكيع.
وأخرجه الطحاوي (1/58) ، والبيهقي (1/283) من طريق أبي عاصم عن
سفيان الثوري. ثم قال الترمذي:
حديث حسن صحيح .
واعلم أن هذا الحديث مما اختلفت فيه آراء علماء الحديث تصحيحاً وتضعيفاً:
فصححه الترمذي وغيره كما يأتي، وضعفه البيهقي وغيره كالمصنف؛ حيث قال
عقبه:
كان عبد الرحمن بن مهدي لا يحدث بهذا الحديث؛ لأن المعروف عن
المغيرة: أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مسح على الخفين ! وذكر البيهقي عن مسلم وغيره
تضعيفه؛ بسبب ما أشار إليه المصنف عن ابن مهدي من المخالفة! وتعقبه ابن
التركماني بقوله:
قلت: هذا الخبر أخرجه أبو داود وسكت عنه؛ وصححه ابن حبان، وقال
الترمذي: حسن صحيح. وأبو قيس عبد الرحمن بن ثروان؛ وثقه ابن معين. وقال
العجلي: ثقة ثبت. وهزيل؛ وثقه العجلي، وأخرج لهما معاً البخاري في
صحيحه . ثم إنهما لم يخالفا الناس مخالفهَ معارضة؛ بل رويا أمراً زائداً على ما
رووه بطريق مستقل غير معارض؛ فيحمل على أنهما حديثان. ولهذا صحح
الحديث كما مر .
وذكر بعضَ هذا: ابنُ دقيق العيد رحمه الله؛ ففي نصب الراية (1/185) :
(1/275)
قال الشيخ تقي الدين في الإمام : ومن يصححه يعتمد- بعد تعديل أبي
قيس- على كونه ليس مخالفاً لرواية الجمهور مخالفة معارضة، بل هو أمر زائد على
ما رووه، ولا يعارضه؛ ولا سيما وهو طريق مستقل برواية هزيل عن المغيرة؛ لم
يشارك المشهورات في سندها
وهذا هو التحقيق في هذا الحديث. وأوضح ذلك الأستاذ الفاضل الشيخ
أحمد محمد شاكر في تعليقه على الترمذي ؛ فقال (1/168) - بعد أن ذكر
بعض كلمات المضعفين-:
وليس الأمر كما قال هؤلاء الأئمة؛ والصواب صنيع الترمذي في تصحيح
هذا الحديث، وهو حديث آخر غير حديث المسح على الخفين، وقد روى الناس عن
المغيرة أحاديث المسح في الوضوء؛ فمنهم من روى المسح على الخفين، ومنهم من
روى المسح على العمامة، ومنهم من روى المسح على الجوربين، وليس شيء منها
بمخالف للآخر؛ إذ هي أحاديث متعددة، وروايات عن حوادث مختلفة، والمغيرة
صحب النبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نحو خمس سنين؛ فمن العقول أن يشهد مع النّبيّ وقائع
متعددة في وضوئه ويحكيها؛ فيسمع بعض الرواة منه شيئاً، ويسمع غيره شيئاً
آخر؛ وهذا واضح بديهي .
وللحديث شاهد وهو:
المشكاة (523) ، الإرواء (101)