تشریح:
(1) عورت عالم دین مرد سے ہر قسم کا مسئلہ پوچھ سکتی ہے لیکن انداز اور الفاظ کا انتخاب مناسب اور حیا کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے۔
(2) ام المومنین رضی اللہ عنہ کو اس سوال پر تعجب ہوا کیونکہ انھیں کبھی ایسی صورت حال پیش نہیں آئی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتوں میں یہ صورت حال شاذونادر پیش آتی ہے جبکہ مردوں میں یہ ایک معمول کا مسئلہ ہے
(3) صرف خواب میں مباشرت کا عمل یا ایسی کوئی چیز نظر آنے سے غسل فرض نہیں ہوتا بلکہ انزال سے غسل فرض ہوتا ہے، اس لیے اگر جسم پر یا لباس پرمادہ منویہ لگا ہوا نظر آئے توغسل کرنا فرض ہوجاتا ہے، خواہ خواب یاد ہو یا نہ ہو۔
(4) (تَرِبَتْ يَمِينُكِ) کے لفظی معنی ہیں’’تیرے داہنے ہاتھ کو مٹی لگے‘‘ لیکن اہل عرب اس قسم کے محاورات تعجب یا ڈانٹ کے موقع پر بولتے ہیں، لفظی مطلب مقصود نہیں ہوتا۔
(5) چونکہ بچے کی تخلیق میں مرد اور عورت دونوں کے پانی کا دخل ہوتا ہے، اس لیے بچہ کبھی باپ یا ددھیالی رشتہ داروں سے مشابہت رکھتا ہے، اور کبھی ماں اور ننھیالی رشتہ داروں سے۔ ارشاد نبوی کا مطلب یہ ہے کہ جب عورت میں یہ پانی موجود ہے جس سے بچے کی تخلیق ہوتی ہے، تو وہ خواب میں جسم سے خارج بھی ہوسکتا ہے لہذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده حسن صحيح. وأخرجه مسلم، وابن حبان (1163) ، وأبو
عوانة في صحاحهم ) .
إسناده: حدثنا أحمد بن صالح قال: ثنا عنبسة: ثنا يونس عن ابن شهاب
قال: قال عروة: عن عائشة.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات رجال البخاري؛ إلا أنه أخرج
لعنبسة- وهو ابن خالد بن يزيد الأموي؛ مولاهم- مقروناً بغيره؛ وذكره ابن حبان
(1/434)
في الثقات ، وأثنى عليه غير واحد، وبالغ المصنف؛ فقال في روايته الأخرى عنه:
عنبسة أحب إلينا من الليث بن سعد .
وفي الطرف الآخر؛ قول يحيى بن بكير:
إنما يحدث عن عنبسة مجنون أحمق! كان يجيئني؛ ولم يكن موضعاً
للكتابة أن يكتب عنه إ!
قلت: ولم نجد ما يسقط الاحتجاج بحديثه، ولولا أن البخاري قرنه بغيره
لصححنا حديثه. وقد قال الحافظ عنه في التقريب :
صدوق .
على أن حديثه هذا صحيح؛ فقد توبع عليه، ذكره أبو عوانة في صحيحه
(1/292) من طريق ابن وهب ثنا يونس... به.
وتابعه جماعة عن ابن شهاب؛ فقال المصنف عقيبه:
وكذا روى الزبيدي وعُقَيل ويونس وابن أخي الزهري عن الزهري، وابن أبي
الوزير عن مالك عن الزهريَ، ووافق الزهرفيَ مسافعٌ الحَجَبِيُ قال: عن عروة عن
عائشة. وأما هشام بن عروة... إلخ المذكور آنفاً.
قلت: أما رواية الزبيدي؛ فأخرجها أبو عوانة والنسائي (1/41) .
وأما رواية عُقَيل؛ فوصلها مسلم وأبو عوانة والدارمي (1/195) ، والبيهقي
(1/168) .
وأما رواية ابن أخي الزهري وابن أبي الوزير؛ فلم أقف عليهما الأن!
وقد رواه مالك في الموطأ (1/70) عن ابن شهاب عن عروة بن الزبير: أن أم
(1/435)
سليم... وهذا منقطع؛ قال ابن عبد البر:
وكل من روى هذا الحديث عن مالك؛ لم يذكر فيه عنه عائشة- فيما
علمت- إلا ابن أبي الوزير وعبد الله بن نافع؛ فإنهما روياه عن مالك عن الزهري
عن عروة عن عائشة أن أم سليم... ، ثم أسنده من طريقهما؛ قال:
وقال الدارقطني: تابع ابنَ أبي الوزير على إسناد هذا الحديث عن مالك:
حباب بن جَبَلَةَ وعبد الملك بن عبد العزيز بن الماجشون ومَعْن بن عيسى . ذكره
السيوطي في تنوير الحوالك .
وأما رواية مسَافع الحَجَبِي؛ فوصلها مسلم وأبو عوانة والطحاوي في مشكل
الآثار (3/276) ، والبيهقي وأحمد (6/92) . الروض النضير (1201