تشریح:
(1) اس حدیث میں مسلمانوں کی باہمی خیرخواہی کی فضیلت اور اس کی ترغیب ہے۔
(2) دوسرے مسلمان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنا چاہیے جیسا کوئی شخص اپنے لیے پسند کرتا ہے، مثلا: جس طرح کوئی شخص یہ پسند نہیں کرتا کہ کوئی اسے دھوکا دے، اسی طرح اسے چاہیے کہ وہ بھی دوسروں کو دھوکا نہ دے، جس طرح ایک شخص یہ پسند کرتا ہے کہ مشکل میں اس کی مدد کی جائے، اسے بھی چاہیے کہ مشکلات میں دوسروں کی مدد کرے۔
(3) عام طور پر انسان اپنے حقوق کے بارے میں بہت حساس ہوتا ہے لیکن اپنے فرائض کے متعلق غفلت کا ارتکاب کرتا ہے، حالانکہ وہ بھی کسی کے حقوق ہیں، اگر ہر شخص دوسروں کے حقوق کا خیال رکھے تو سب کے حقوق محفوظ ہو جائیں گے اور معاشرے میں امن و امان قائم ہو جائے گی۔
(4) اخلاق حسنہ ایمان کی تکمیل کا باعث ہیں، ان کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوتا، جس کے نتیجے میں آخرت میں عذاب ہو سکتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 113 :
أخرجه البخاري ( 1 / 11 ) ، و مسلم ( 1 / 49 ) ، و أبو عوانة في " صحيحه "
( 1 / 33 ) ، و النسائي ( 2 / 271 ، 274 ) ، و الترمذي ( 2 / 84 ) ، و الدارمي
( 2 / 307 ) ، و ابن ماجه ( رقم 66 ) ، و الطيالسي ( رقم 2004 ) ، و أحمد
( 3 / 177 ، 207 ، 275 ، 278 ) من حديث أنس بن مالك مرفوعا .
و قال الترمذي : " حديث صحيح " .
و الزيادة لأبي عوانة و النسائي و أحمد في رواية لهم و إسنادها صحيح .
و للحديث شاهد من حديث علي مرفوعا بلفظ :
" للمسلم على المسلم ست .... و يحب له ما يحب لنفسه ، و ينصح له بالغيب " .
أخرجه الدارمي ( 2 / 275 - 276 ) ، و ابن ماجه ( 1433 ) ، و أحمد ( 1 / 89 )
بسند ضعيف .
و اعلم أن هذه الزيادة " من الخير " زيادة هامة تحدد المعنى المراد من الحديث
بدقة ، إذ أن كلمة ( الخير ) كلمة جامعة تعم الطاعات و المباحات الدنيوية
و الأخروية و تخرج المنهيات ، لأن اسم الخير لا يتناولها ، كما هو واضح . فمن
كمال خلق المسلم أن يحب لأخيه المسلم من الخير مثلما يحب لنفسه . و كذلك أن
يبغض لأخيه ما يبغض لنفسه من الشر ، و هذا و إن لم يذكره في الحديث ، فهو من
مضمونه ، لأن حب الشيء مستلزم لبغض نقيضه ، فترك التنصيص عليه اكتفاء كما قال
الكرماني و نقله الحافظ في " فتح الباري " ( 1 / 54 ) و أقره