تشریح:
(1) اسلام میں عصمت وعفت کی حفاظت اور پاک دامنی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے اسلام میں بہت سے احکامات ہدایات اور قوانین موجود ہیں مثلاً
(ا) بدکاری کو کبیرہ گناہ قرار دیا گیاہے۔
(ب) اس جرم کے مرتکب کے لیے سخت ترین سزا مقرر کی گئی ہے۔
(ج) نکاح پر اس حد تک زور دیا گیا ہے کہ غلاموں اور بیواؤں تک کی شادی کا حکم دیاگیا ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ﴾(النور:٣٢) تم میں سے جو بے نکاح ہوں (بیوائیں رنڈوے کنوارے) اور تمھارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو نیک خصلت ہوں ان کا نکاح کردو۔
(د) نکاح کرنے والوں کو خوشحالی کی خوشخبری دی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:﴿إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ﴾ (النور:٣٢) اگر وہ تنگ دست ہوں گےتو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کردےگا۔
(ر) جو نوجوان کسی وجہ سے نکاح نہ کر سکے اسے بکثرت نفلی روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہےتاکہ جذبات قابو میں رہیں۔ (صحيح البخاري، النكاح، باب قول النبي صلي الله عليه وسلم من استطاع منكم الباء فليتزوج۔۔۔۔۔۔، حدیث:5065)
(د) مردوں اور عورتوں دونوں کو نظر کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے، ارشادہے: ﴿قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ﴾ (النور:30) مومنوں سے کہہ کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں۔ ﴿وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ﴾ ( النور:٣١) اور مومن عورتوں سے کہہ دیجے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں۔
(ز) نامحرم مردوں سے پردےکا حکم دیا گیا ہے۔ (سورہ نور آیت:31)
(ج) دوسروں کے گھروں میں جاتے وقت اجازت طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (سورہ نور ایت:59)
(ط) خاص اوقات میں بچوں کو بھی بڑوں کے سامنے جانے سے منع کیا گیا ہے۔ (سورہ النور:57) انہی ہدایات میں سے یہ ہدایت بھی ہےجو زیر مطالعہ حدیث میں بیان ہوئی ہے کہ پردہ صرف اجنبی مردوعورت کے درمیان ہی نہیں بلکہ مرد مرد سے اور عورت عورت سے ایسا انداز اختیار نہ کرے جو شرم وحیا کے منافی ہو۔ اس موضوع پر تفصیل کے لیے دیکھیے: (ڈاکٹر فضل الہی ؒ کی تصنیف ’’اَلتَّدَابِيْرُ الْوَاقِيْةُ مِّنَ الزِّنَا‘‘ یا اس کا اردو ترجمہ اسلام کا نظام عفت )
(2) مرد کے لیے مرد سے جن اعضاء کا چھپانا فرض ہے ان میں میشاب اور پاخانہ کے اعضاء بالاتفاق شامل ہیں۔ ران میں اختلاف ہے۔ امام بخاری ؒ نے اگرچہ ران کو پردے کے اعضاء میں شمار نہیں کیا تاہم ان کے ہاں بھی احتیاط اسی میں ہے کہ اسے چھپایا جائے۔ (صحيح البخاري، الصلاة، باب ما يذكر في الفخذ،)
(3) عورتوں کو بھی دوسری عورتوں کے مذکورہ بالا اعضاء دیکھنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ بچے کی پیدائش یا اس قسم کی مجبوری کے موقعوں پر بھی صرف وہی عورت دیکھے جس کے بغیر کام نہیں نکلتا۔ دوسری عورتوں کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔
(4) عورت کو اپنی چھاتیاں بھی دوسری عورتوں کے سامنے ظاہر نہیں کرنی چاہییں۔
الحکم التفصیلی:
. قلت : وإنما اقتصرت على تحسينه مع اخراج مسلم إياه في " صحيحه " لأن الضحاك بن عثمان وهو الحزامي المدني وفيه كلام قال الحافظ في " التقريب " : " صدوق يهم
غاية المرام (185) ، الروض النضير (1179)