تشریح:
1۔ایک دنیا دار کی نظر میں اس سے بڑا کوئی نقصان نہیں ہوسکتا کہ اس کے بیوی بچے اور رشتہ دار سب ایک ہی بار ہلاک ہوجائیں اس کے مویشی مرجائیں مکان اور عمارتیں زمین بوس ہوجائیں روپیہ پیسہ لوٹ لیا جائے اس کا گھر رہے نہ در اور وہ کوڑی کوڑی کا محتاج ہوجائے لیکن نبی کریمﷺ کی نظر میں اتنا بڑا نقصان اس نقصان کا مقابلہ نہیں کرسکتا جو ایک نماز کے چھوڑنے سے ہوتا ہے۔ جس نے نفس امّارہ کی بات مان کر اور شیطان کے بہکاوے میں آ کرعصر کی صرف ایک نماز چھوڑدی اس کا نقصان اسی طرح ناقابل تلافی ہے۔ 2۔ عصر کی نماز کی اہمیت دوسری نمازوں سے زیادہ ہے اس لیے قرآن مجید نے اس نماز کا خاص طور پر ذکر کیا ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وقت کاروباری مصروفیات کا ہوتا ہےاور انسان تھوڑے سے دنیادی فائدے کے لیےاللہ کو بھول جاتا ہے لیکن دنیا کا بڑے سے بڑا منافع اس نقصان کا بدل نہیں ہوسکتا کیونکہ فائدہ تو دنیا کا ہے اور نقصان آخرت کا۔ اور دنیا کے تمام خزانے اور تمام نعمتیں اللہ کی نظر میں مچھر کے پر جتنی بھی وقعت نہیں رکھتیں، ارشاد نبوی ہے: ’’اگر دنیا کی وقعت اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو اس میں سے ایک گونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔‘‘ (جامع الترمذي، الزهد، باب ماجاء في هوان الدنيا علي الله عزوجل، حديث:2320)
(3) نماز فوت ہونے کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ وہ نماز وقت پر ادا نہیں ہوئی، اگرچہ بعد میں پڑھ لی۔ اس صورت میں اس کے نقصان کی مثال وہ ہے جو بیان ہوئی۔ جس نے بالکل چھوڑدی اس کا نقصان تو اس سے زیادہ ہے۔
(4) روایت کے آخری کلمات کے یہ معنی بھی کیے گئے ہیں۔ گویا وہ شخص اہل وعیال اور مال ودولت سمیت تباہ وبرباد ہوگیا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه هو وأبو عوانة في
صحيحيهما . وقال الترمذي: حديث حسن صحيح ) .
إسناده: حدثنا القعنبي عن مالك عن العلاء بن عبد الرحمن.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم.
(2/284)
والحديث في الموطأ (1/221) ... بهذا الإسناد.
وأخرجه البيهقي (1/444) من طريق المؤلف.
وأخرجه أبو عوانة (1/356) ، والطحاوي (11/13) ، وأحمد (3/185) ، من
طرق عن مالك... به.
وأخرجه مسلم (2/110) ، والنسائي (1/89) ، والترمذي (1/301) ،
والبيهقي أيضا من طريق إسماعيل بن جعفر عن العلاء بن عبد الرحمن... به.
وقال الترمذي:
حديث حسن صحيح .
وانظر الصحيحة (1745) .