تشریح:
(1) نبی اکرم ﷺ کی نظر میں نماز کی اتنی اہمیت تھی کہ سفر میں تھکاوٹ کے موقع پر آرام کرتے ہوئے بھی یہی خیال تھا کہ نماز لیٹ نہ ہوجائے۔ اس لیے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی باقاعدہ ڈیوٹی لگا دی تاکہ فجر کی نماز بروقت پڑھی جائے۔
(2) حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے پورا اہتمام کیا۔ ایک یہ کہ بقیہ رات نماز پڑھتے رہے تاکہ نیند نہ آجائے اور پھر اذان کا وقت قریب ہوا تو بھی پوری مستعدی سے مشرق کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ گئے تاکہ جونہی صبح صادق طلوع ہو اذان کہہ دیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کے ذمہ کوئی اجتماعی کام لگایا جائے اسے چاہیے کہ اس کی ادائیگی کے لیے بہتر سے بہتر انداز سے کوشش کرے۔
(3) کسی قوم یا جماعت کے سربراہ کو چاہیے کہ اگر اجتماعی کام میں کوئی خلل واقع ہوتو اس کے ذمہ دار سے باز پرس کرے تاکہ دوسرے لوگ اپنے فرائض میں کوتاہی کرنے سے اجتناب کریں۔
(4) اگر معلوم ہو کہ کام میں خلل کی وجہ ذمہ دار کی بے پرواہی یا عمداً کوتاہی نہیں تو اس کا عذر قبول کیا جائے اور اسے مزید توبیخ نہ کی جائے۔
(5) قافلہ کو اس مقام سے چلا کر کچھ دور ٹھر جانے میں یہ حکمت ہو سکتی ہے کہ سستی ختم ہو کر تمام افراد ہوشیار اور چست ہو جائیں تاکہ نماز میں نیند اور سستی کا اثر باقی نہ رہے۔
(6) قضاء شدہ نماز بھی باجماعت ادا کی جاسکتی ہے۔
(7) حدیث میں مذکورہ آیت کی دو قراءتیں ہیں اور دونوں صحیح ہیں۔ پہلی قراءت جو ہمارے ہاں رائج ہے۔ ﴿وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذکْري﴾ اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز کا اصل مقصد اللہ کی یاد ہے لہٰذا نماز پوری توجہ کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے۔ دوسری قراءت ﴿وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِلذِّکْرٰي﴾ سے زیر بحث مسئلہ کی دلیل بنتی ہے۔ اس صورت میں اس کا مطلب نصیحت کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ اور یاد کے لیے یا یاد کے وقت بھی۔ حدیث میں یہی آخری مطلب مراد ہے۔ اس سے دلیل لیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے یہ مسئلہ بیان فرمایا کہ اگر کسی وجہ کوئی شخص نماز پڑھنا بھول جائے تو یاد آتے ہی فوراً ادا کرلینی چاہیے، بلاوجہ مزید تاخیر کرنا مناسب نہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح) .
إسناده: حدثنا أبو الوليد الطيالسي: نا أبو هاشم- يعني: الزعفراني-:
(2/323)
حدثني صالح بن عًبَيْد عن قَبِيصة بن وقاص.
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات؛ غير صالح بن عبيد؛ قال ابن القطان وغيره: لا يعرف حاله .
وقبيصة بن وقاص، صحابي له هذا الحديث.
وأبو هاشم الزعفراني: اسمه عَمار بن عمارة، وهو ثقة.
لكن الحديث تشهد له الأحاديث التي قبله فهو صحيح لغيره.والحديث أخرجه ابن سعد (7/56) ... بإسناد المصنف.
الإرواء (1 / 292)