تشریح:
یہ روایت تو سنداً ضعیف ہے لیکن اس میں بیان کردہ بات دوسرے دلائل کی رو سے صحیح ہے۔ طائف کی یہ مسجد بھی وہیں تعمیر ہوئی تھی جہاں لات کا بت خانہ اور آستانہ تھا۔ معلوم ہوا کہ حکومت اسلامیہ میں کفار کے معاہد کو مساجد میں تبدیل کرنا جائز ہے بالخصوص اس صورت میں جبکہ کسی ملک کو فتح کیا جائے۔ نیز تاریخی طور پر یہ بھی ثابت ہے کہ عالمگیر بادشاہ نے بھی ہندوستان میں کفار کے معاہد پر مساجد تعمیر کروائیں دیکھیے: عون المعبود۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ من أجل عطية- وهو العوفي-؛ قال المنذري: " هو
ضعيف الحديث " . قلت: وهو مدلس أيضاً، وقد عنعن، وحديثه هذا في
" صحيح البخاري " من رواية نافع عن ابن عمر بغير هذا السياق، وهو في
الكتاب الأخر (رقم 477) ) .
إسناده: حدثنا محمد بن حاتم: ثنا عبيد اللّه بن موسى عن شيبان عن فراس
عن عطية.
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله كلهم ثقات رجال البخاري؛ غير عطية
- وهو ابن سعد العوفي-، ويتلخص من أقوال الأئمة فيه أنه في نفسه ثقة، ولكنه
ضعيف من قبل حفظه. وقد قال المنذري في " مختصره " (رقم 425) :
" هو ضعيف الحديث " . وقال الذهبي في " الميزان " :
" تابعي شهير ضعيف " . وقال الحافظ في " التقريب " :
" صدوق يخطئ كثيراً، كان شيعياً مدلساً " . وقال في " طبقات المدلسين " :
" ضعيف الحفظ، مشهور بالتدليس القبيح " .
(1/157)
وقد روى نافع هذا الحديث عن ابن عمر؛ ولم يذكر فيه أن الجذوع نخرت في
أيام أبي بكر فبناها... إلخ.
وهذا مما يدل على ضعف عطية.