تشریح:
(1) مسجد میں جماعت کھڑی ہونے سے کافی پہلے جانا چاہیے تاکہ سنت اور نوافل وغیرہ ادا کیے جا سکیں یا ذکروتلاوت سے ثواب حاصل کیا جائے۔
(2) فرض نماز کے انتظار میں بیٹھنے سے نماز جتنا ثواب ملتا ہے۔ اس اثناء میں کیا جانے والا ذکر اور پڑھے جانے والے نوافل مزید ثواب کا باعث ہوتے ہیں۔
(3) فرض نماز ادا کرنے کے بعد اسی مقام پر بیٹھ کر مسنون اوراد و وظائف میں مشغول رہنا بہت زیادہ اجر وثواب کا کام ہے۔
(4) باوضو رہنا ثواب اور فضیلت کا باعث ہے۔
(5) بو سے جس طرح انسان کو تکلیف ہوتی ہے اسی طرح فرشتے بھی اس سے اذیت محسوس کرتے ہیں اس لیے بو پیدا ہونے کے بعد فرشتے نمازی کے حق میں دعا کرنا بند کردیتے ہیں۔
(6) جب تک تکلیف نہ دے اس کا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ زبان سے نا مناسب بات کہہ کر کسی نمازی کو تکلیف نہ دے۔ بے وضو ہوجانے کی بو سے بھی نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہےممکن ہے یہی مراد ہو۔ واللہ اعلم
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرطهما. وقد أخرجه البخاري بإسناد
المصنف، ورواه مسلم أيضا وأبو عوانة في "صحيحيهما") .
إسناده: حدثنا القعنبي عن مالك عن أبي الزناد عن الأعرج عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرطهما.
والحديث أخرجه البخاري (2/112- 113) ... بإسناد المصنف؛ لكنه قرنه
بالحديث الذي قبله، وجعلهما حديثاً واحداً.
وهو في "الموطَّأ" (1/175) مفرقاً. قال الحافظ:
" قوله: " لا يزال أحدكم "؛ هذا القدر أفرده مالك في "الموطأ" عما قبله،
وأكثر الرواة ضموه إلى الأول، فجعلوه حديثاً واحداً، ولا حَجْرَ في ذلك ".
قلت: وكذلك أخرجه أبو عوانة (2/22) من طريق ابن وهب والقعنبي عن
مالك؛ مضموماً إلى الأول.
وأخرجه مسلم (2/129) ؛ هذا القدر وحده.
ومما ذكرنا؛ تعلم أن عزو المنذري الحديث لمسلم وحده! قصور أو دْهول!
صحيح الترغيب والترهيب (442