تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) ہمارے فاضل محقق نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ جبکہ دیگر محققین نے صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔ تفصیل کےلئے دیکھيے: (الموسوعة الحدیثة مسند إمام أحمد بن حنبل:73/5، حدیث:2895، وصفة الصلاة للألبانی، وسنن ابن ماجة بتحقیق الدکتور بشارعواد:164،163/2، حدیث:898) بنا بریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل حجت اور قابل عمل ہے۔
(2) یہ دعا قدرے مختلف الفاظ سے جامع الترمذی اور سنن ابوداؤد میں بھی موجود ہے۔ ذیل میں ان دونوں روایات کے مطابق بھی دعا درج کی جاتی ہے۔ تاکہ آ پ ان میں سے جس طریقے سے چاہیں دعا پڑھ سکیں۔
(الف) (اللهم اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاجْبُرْنِي، وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي،) (جامع الترمذي، الصلاة، باب ما يقول بين السجدتين، حديث:284) ’’اے اللہ! میری مغفرت فرما۔ مجھ پر رحم کر، میرے نقص دور فرما، مجھے ہدایت دے، اور مجھے رزق دے۔‘‘
(ب) (اللهم اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَعَافِنِي، وَاجْبُرْنِي، وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي،) ’’اے اللہ ! میری مغفرت فرما ۔مجھ پر رحم کر۔مجھے عافیت بخشا۔مجھے ہدایت دے۔ اور مجھے رزق دے۔‘‘ (سنن ابوداؤد، الصلاۃ، باب الدعاء بین السجدتین، حدیث:850)
(3) اس دعا کا پڑھنا سنت ہے۔ مگر کچھ لوگ اس سے غافل ہیں۔ بلکہ زیادہ ہی غافل ہیں۔ امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اس پر اس انداز میں افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ ’’لوگوں نے صحیح احادیث سے ثابت شدہ سنت کوچھوڑ رکھا ہے۔ اس میں ان کےمحدث فقیہ مجتہد اور مقلد سبھی شریک ہیں۔ نہ معلوم یہ لوگ کس چیز پر تکیے کئے ہوئے ہیں۔‘‘ (نیل الاوطار:293/3) نیز شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ اور کچھ دیگر علماء اور ائمہ کم از کم (رَبِّ اغْفِرْ لِي) پڑھنے کو واجب قرار دیتے ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث حسن، وصححه الحاكم والذهبي والعسقلاني) .إسناده: حدثنا محمد بن مسعود: ثنا زيد بن الحبَاب: ثنا كامل أبو العلاء
حدثني حبيب بن أبي ثابت عن سعيد بن جبير عن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد حسن؛ إن كان حبيب بن أبي ثابت سمعه من سعيد؛ فقد
وُصِفَ بالتدليس، رجاله ثقات رجال مسلم؛ غير محمد بن مسعو- وهو ابن
يوسف النيسا بوري-، وهو ثقة عارف.
لكن كاملاً أبا العلاء- وهو ابن العلاء- وإن أخرج له مسلم؛ فقد اختلفوا فيه؛
فقال ابن معين:
ثقة . وقال النسائي:
ليس بالقوي . وقال في موضع آخر:
ليس به بأس . وقال ابن عدي:
رأيت في بعض رواياته أشياءَ أنكرتها، وأرجو أنه لا بأس به . وقال ابن حبان:
كان ممن يقلب الأسانيد ويرفع المراسيل، من حيث لا يدري، فبطل
الاحتجاج بأخباره . وقال الحافظ في التقريب :
صدوق يخطئ .
قلت: فمثله حسن الحديث؛ إلا أن يظهر خطؤه. والله أعلم.
والحديث أخرجه الترمذي (2/76) ، والحاكم (1/262 و 271) من طرق عن
زيد بن الحباب... به. وقال الترمذي:
حديث غريب . وقال الحاكم:
صحيح الإسناد، وأبو العلاء كامل بن العلاء ممن يجمع حديثه ، ووافقه
الذهبي، وأقره الحافظ في بلوغ الرام .
وتابعه خالد بن يزيد الطَّيّب: ثنا كامل بن العلاء... به أتم منه.
أخرجه البيهقي (2/122) .
وتابعه أيضا يحيى بن آدم: حدثنا كامل بن العلاء... به مختصراً مثل لفظ
الكتاب؛ إلا أنه قال: عن حبيب بن أبي ثابت عن ابن عباس- أو عن سعيد بن
جبير عن ابن عباس- على الشك.
أخرجه أحمد (1/315) .
وتابعه أسود بن عامر: أخبرنا كامل عن حبيب عن ابن عباس... به مطولاً؛
وأسقط سعيداً.
أخرجه أحمد (1/371) .
والصواب: إثبات سعيد بن جبير؛ لاتفاق زيد بن الحباب وخالد بن يزيد
عليه، ويحتمل أن حبيباً كان تارة يذكره، وتارة يسقطه؛ لأنه كان مدلساً كما
تقدم؛ فرواه كامل على الوجهين، فروى كل ما سمع منه. والله أعلم.
وللحديث شاهد موقوف على علي: عند الشافعي (257) ، وابن نصر (76) .
وآخر مختصر يأتي (818) .