تشریح:
(1) ہمارے فاضل محقق نے اس روایت کو سنداً ضعیف کہا ہے، تاہم شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے مجموعی طرق کو سامنے رکھتے ہوئے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (الصحیحۃ۔ حدیث:2718)
(2) اللہ کا قرب نیک اعمال سے حاصل ہوتا ہے۔ جس قدر نیکیاں زیادہ ہوں گی اسی قدر مقام بھی بلند ہو گا،
(3) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا ایمان بعد کے لوگوں سے زیادہ اعلیٰ اور اکمل تھا، اس لیے ان کے اعمال میں خلوص بھی زیادہ تھا، چنانچہ ان کے بظاہر معمولی اعمال بھی بعد والوں کے بظاہر عظیم اعمال سے افضل شمار ہوئے۔ خصوصا جن حالات میں ان حضرات نے مالی قربانیاں دیں بعد کے مسلمانوں کو وہ حالات پیش نہیں آئے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي‘ فَلَوْ اَنَّ اَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغض مُدَّ اَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيْفَهُ) (صحيح البخاري، فضائل اصحاب النبي صلي الله عليه وسلم، باب قول النبي صلي الله عليه وسلم لو كنت متخذا خليلا، حديث:3673) میرے صحابہ کو برا نہ کہو، تم میں سے کوئی اگر اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے، تو کسی صحابی کے ایک مُد بلکہ آدھے مُد (کے ثواب) تک نہیں پہنچ سکتا۔
(4) اس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خلوص اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی محبت بھی ظاہر ہے کہ اپنے اعمال پر فخر نہیں کیا، بلکہ اپنے مال کو نبی کریم علیہ السلام ہی کا مال قرار دیا، جیسے کسی شاعر نے کہا ہے
منت منہ کہ خدمت سلطان مے کنی
منت ازو شناس کہ بخدمت گذاشت
’’احسان نہ جتلا کہ تو بادشاہ کی خدمت کر رہا ہے، بلکہ اس کا احسان سمجھ کہ اس نے تجھے اپنی خدمت میں رکھ چھوڑا ہے۔‘‘
(5) امام، قائد یا لیڈر کو چاہیے کہ اپنے ساتھیوں کی خدمات کو اہمیت دے اور ان کا اعتراف کرے تاکہ دوسروں کو بھی دین کی خدمت کا شوق پیدا ہوا اور وہ ان حضرات کا کماحقہ احترام بھی کریں، اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش بھی کریں۔
(6) جس شخص کے متعلق یہ خیال ہو کہ اس کی تعریف سے اس کے دل میں تکبر اور فخر کے جذبات پیدا نہیں ہوں گے، کسی حکمت کے پیش نظر اس کی موجودگی میں بھی اس کی تعریف کی جا سکتی ہے۔ عام حالات میں کسی کے سامنے اس کی تعریف کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
(7) اس حدیث میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی افضلیت کا صرف ایک پہلو (إِنْفَاق فِیْ سَبِیْلِ اللہ) ذکر کیا گیا ہے، جبکہ آپ رضی اللہ عنہ کی افضلیت کے اور بھی بہت سے پہلو ہیں جو مختلف احادیث میں مذکور ہیں۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 6 / 487 :
أخرجه ابن راهويه في " مسنده " ( 4 / 80 / 1 ) : أخبرنا سفيان الثوري عن الزهري
عن عروة - إن شاء الله - عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال :
فذكره . قلت : و هذا إسناد صحيح على شرط الشيخين ، و قول الزهري : " إن شاء
الله " لا يضر ، لأن الراوي قد يشك أحيانا ، و قد رواه غير واحد بدون شك ،
فأخرجه الحميدي ( 1 / 121 / 250 ) و أبو يعلى في " مسنده " ( 3 / 1090 ) و ابن
أبي عاصم في " السنة " ( 1230 ) عن سفيان به . و سفيان هو ابن عيينة . و روى
ابن حبان ( 2167 ) من طريق هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة قالت : " أنفق أبو
بكر رضي الله عنه على رسول الله صلى الله عليه وسلم أربعين ألفا " . و سنده
صحيح . و للحديث شاهد من حديث أبي هريرة مرفوعا به ، و زاد : " قال : فبكى أبو
بكر ، و قال : و هل نفعني الله إلا بك ؟ و هل نفعني الله إلا بك ؟ و هل نفعني
الله إلا بك ؟ " . أخرجه أحمد ( 2 / 366 ) : حدثنا معاوية قال : حدثنا أبو
إسحاق - يعني الفزاري - عن الأعمش عن أبي صالح عنه . قلت : و هذا إسناد صحيح
على شرط الشيخين ، و معاوية هو ابن عمرو الأزدي . و أبو إسحاق اسمه إبراهيم بن
محمد بن الحارث . و قد تابعه أبو معاوية : حدثنا الأعمش به ، إلا أنه قال : " و
هل أنا و مالي إلا لك يا رسول الله ؟ " . أخرجه ابن أبي شيبة ( 12 / 759 ) و
أحمد ( 2 / 252 ) عنه ، و كذا ابن ماجه ( 1 / 49 ) و ابن أبي عاصم ( 1229 ) و
ابن حبان ( 2166 ) من طرق عنه . و هو صحيح أيضا كالذي قبله . و له طريق أخرى
يرويه محبوب بن محرز القواريري عن داود بن يزيد الأموي عن أبيه عن أبي هريرة به
. أخرجه الترمذي ( 3262 ) و قال : " حديث حسن غريب من هذا الوجه " . قلت :
محبوب لين الحديث ، و داود ضعيف ، و أبوه عند ابن حجر مقبول ، فقول الترمذي
مقبول ، لو لم يقل : " غريب .. " ! لأنه ينافي أنه أراد : حسن لغيره !