تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) ہمارے فاضل محقق نے اس روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ جبکہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے پہلے حصے ’’یعنی اس شخص کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ جولوگوں کا امام بن جائے حالانکہ وہ اسے ناپسند کرتے ہوں۔‘‘ کو صحیح قرار دیا ہے۔ حدیث کا یہ جملہ اگلی حدیث میں بھی آ رہا ہے جسے ہمارے محقق نے حسن قرار دیا ہے بنا بریں یہ جملہ قابل عمل اور قابل حجت ہے تفصیل کےلئے دیکھئے: (صحیح الترغیب للأبانی، رقم:486،483 وضعیف سنن ابن ماجه، رقم:205)
(2) امام کے لئے یہ وعید اس وقت ہے جب نمازیوں کی اس سے ناراضی کی شرعاً معقول وجہ ہو مثلا وہ کسی اور اہلیت رکھنےوالے آدمی کو امام مقرر کرنا چاہتے ہوں یا اس کے فسق وفجور کی وجہ سے اسے امام بنانا پسند نہ کرتے ہوں۔ لیکن اگر وہ اس لئے ناراض ہوں کہ امام انھیں شرک وبدعت سے یا غلط کاریوں سے منع کرتا ہے۔ یا سنت کے مطابق اطمینان سے اور اول وقت نماز پڑھاتا ہے۔ یا اس قسم کی کوئی وجہ ہو تو امام گناہگار نہیں۔ مقتدیوں کی غلطی ہے۔ انھیں اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔
(3) آخری وقت میں نماز ادا کرنے اور کسی آزاد آدمی کو اغوا کرکے غلام بنا لینے کا گناہ دوسری صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ تاہم نماز کے قبول نہ ہونے کی روایت صحیح نہیں۔جیسے کہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے وضاحت کی ہے۔
(4) بلاعذر نماز آخر وقت میں پڑھنے پر وعید آئی ہے۔ نبی ﷺنے فرمایا۔ ’’یہ منافق کی نماز ہے وہ بیٹھا سورج کو دیکھتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ جب وہ (غروب ہونے کے قریب ہوتا ہے اور) شیطان کے سینگوں کے درمیان ہوجاتا ہے۔ تو یہ اٹھ کرچار ٹھونگیں مار لیتا ہے۔ جن میں اللہ کو بہت کم یاد کرتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، باب استحباب التبکیر بالعصر، حدیث:622)
(5) آزاد آدمی کو اغوا کرکے غلام بنا لینا بھی بہت بڑا جرم ہے۔ جس کی شناعت احادیث میں وارد ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تین آدمیوں کے خلاف قیامت کے دن میں خود مدعی ہوں گا۔۔۔ایک وہ آدمی جس نے کسی آزاد کو (غلام بنا کر) بیچ دیا اور اس کی قیمت کھالی‘‘ (صحیح البخاري، البیوع، باب إثم من باع حرا، حدیث:2227)
الحکم التفصیلی:
(قلت: هذا إسناد ضعيف؛ حسين بن عيسى الحنفي ضعفه الجمهور، وقد
تفرد بهذا الحديث عن الحكم. وقال البخاري: " إنه حديث منكر ") .
إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا حسين بن عيسى الحنفي...
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله موثقون؛ غير حسين بن عيسى الحنفي؛
قال البخاري:
" مجهول، وحديثه منكر " ؛ يشير إلى هذا الحديث- كما ذكر الحافظ في
" التهذيب " - وقال أبو زرعة:
" منكر الحديث " . وقال أبو حاتم:
" ليس بالقوي، روى عن الحكم بن أبان أحاديث منكرة " . وقال ابن عدي:
" له من الحديث شيء قليل، وعامه حديثه غرائب، وفما بعض حديثه
مناكير " .
وشذ ابن حبان فذكره في " الثقات " ! وقال الحافظ:
" ضعيف " . وقال المناوي في " الفيض " :
" نسب إليه أبو زرعة وأبو حاتم النكارة في حديثه. وبذلك يُعْرفُ ما في رمز
المصنف لصحته " .
قلت: والذي في النسخة المطبوعة- مع شرح المناوي-: الرمز لحسنه!
وهذا مما يدل على أن الرموز المذكورة في هذا الكتاب قد طرأ عليها التغيير
والتبديل، فلا يعتمد عليها، لا سيما وأن السيوطي نفسه متساهل في التوثيق
والتصحيح!
ولعل الشوكاني اغتر به، فذهب إلي تقوية الحديث فى كتابه " السيل الجرار "
(1/200) .
والحديث أخرجه ابن ماجه (1/247) عن هذا الشيخ... بهذا الإسناد. وقال
المنذري- بعد أن عزاه إليه في " مختصره " (رقم 561) -:
" وفي إسناده الحسين بن عيسى الحنفي الكوفي، وقد تكلم فيه أبو حاتم وأبو
زرعة، وذكر الدارقطني أن الحسين بن عيسى تفرد بهذا الحديث عن الحكم بن
أبان " .
صحيح أبي داود (607)