تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) نماز تہجد کے لئے جاگیں تو پہلے یہ دعا پڑھیں۔ پھر وضو وغیرہ کرکےنماز شروع کریں۔
(2) اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب انوار اسی کے دیئے ہوئے اور پیدا کیے ہوئے ہیں۔ اللہ کی ذات کی تجلی برداشت کرنا اس دنیا میں تو پہاڑ کے لئے بھی ممکن نہیں البتہ جنت میں مومنوں کو اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا۔ جیسے کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، باب معرفة طریق الرویة، حدیث:182)
(3) تو حق ہے۔ اس میں اللہ کے وجود کا اقرار بھی ہے۔ اور یہ اظہار بھی کہ اس کے تمام احکام درست ہیں۔ خواہ ہمیں ان کی حکمت کا علم ہو یا نہ ہو۔
(4) اللہ کے وعدوں سےمراد وہ امور ہیں۔ جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے کہ فلاں کام کا یہ ثواب ہے۔ اور فلاں کام کے نتیجے میں دنیا وآخرت میں یہ سزا ملے گی۔
(5) اللہ کی ملاقات سے مراد یہ ہے کہ موت کے بعد جی اٹھنا یقینی ہے۔ جس کے بعد اپنی زندگی کے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ اور یہ مطلب بھی ہے کہ جنت میں اللہ تعالیٰ کی زیارت ہوگی۔
(6) اللہ کے فرمان کے حق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے ذریعے سے ہمیں ماضی کے جو واقعات بتائے ہیں۔ وہ یقیناً اس طرح پیش آئے تھے۔ جس طرح بیان کئے گئے ہیں اسی میں کائنات کی تخلیق کے مسائل بھی آ جاتے ہیں۔ اورانبیاء کرام کا اپنی اقوام کو تبلیغ کرنا ایذائوں پر صبر کرنا قوم میں سے انکار کرنے والوں پر عذاب آنا وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اس میں وہ ابدی اور دائمی قوانین بھی شامل ہیں۔ جو انبیاء کرام علیہ السلام کے ذریعے سے ہمیں بتائے گئے ہیں۔ مثلاً ﴿مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ﴾ (النساء:123) ’’جو شخص برا کام ہوگا۔اسے اس کی سزا مل جائے گی‘‘ اور (مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ وَمَا زَادَ اللَّهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ) (صحیح مسلم، البر والصلة والأدب، باب استحباب العفو والتواضع، حدیث:2588) ’’صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا اور معاف کرنے سے اللہ بندے کی عزت ہی میں اضافہ فرماتا ہے اور جو کوئی بھی اللہ کی رضا کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے ضرور بلندی عطا فرماتا ہے۔
(7) جنت اور جہنم کے حق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حقیقت میں موجود ہیں۔ ان کا ذکر تشبیہ اور استعارہ کے طورپر نہیں کیا گیا ان کی نعمتو ں اور عذاب کی جو تفصیل قرآن مجید اور صحیح احادیث میں وار د ہے وہ شک وشبہ سے بالاتر ہے۔
(8) قیامت حق ہے۔ یعنی اس لے لئے اللہ نے جو وقت مقرر کیا ہے۔ اس وقت یقیناً آئے گی۔ اور اس کی جو تفصیلات قرآن وحدیث میں مذکور ہیں وہ سب یقینی ہیں۔
(9) تمام انبیاء کرام اور بالخصوص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ تمام حضرات اپنے اپنے وقت پر اللہ کی طرف سے مبعوث ہوئے وہ سچے تھے۔ اور کردار کی تمام خوبیوں کے حامل اور ہرقسم کی عملی اور اخلاقی کمزوریوں سے پاک تھے۔ انھوں نے اللہ کے احکام اپنی اپنی امت تک پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اور اپنی طرف سے مسائل گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب نہیں کئے۔
(10) (محمد حق) تک وہ عقیدہ بیان ہوا ہے جو ہر مسلمان کو رکھنا چاہیے۔ اور اس کے بعد ایک مخلص مومن کا اللہ کے ساتھ تعلق اور اس کے مختلف پہلو اجاگر کیے گئے ہیں۔
(11) یہ دعا اس لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ کہ اس میں صحیح عقیدے کا اقرار۔ اللہ کے صحیح تعلق کی وضاحت اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا اور آخر میں پھر اللہ کی تعریف اور اپنے عجز کا اظہار ہے رات کے آخری حصے کی تنہائی میں جب بندہ اللہ کے سامنے عبودیت کا اس انداز سے اظہار کرتا ہے۔ تویقیناً اسے اللہ کی رضا اور قرب کے عظیم درجات حاصل ہوتے ہیں۔ وباللہ التوفیق
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وأخرجه هو وأبو عوانة في"صحيحيهما"، وقال الترمذي: " حديث حسن صحيح ". وأخرجه البخاري نحوه) .
إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة عن مالك عن أبي الزبير عن طاوس عن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم.
والحديث أخرجه مالك في "الموطأ" (1/217) .
ومن طريقه: أخرجه مسلم (2/184) ، وأبو عوانة (2/300- 301) ،
والترمذي (2/249- طبع بولاق) - وقال: " حديث حسن صحيح "-، وأحمد
(2710 و 2813) كلهم عن مالك... به.
وأخرجه الطبراني في " معجمه الكبير" من طريق جنادة بن سَلْم عن عبيد الله ابن عمر عن أبي الزُّبَيْرَ... به، بلفظ:
كان يقول- بعد التكبير، وبعد أن يقول: " وجهت وجهي للذي فطر السماوات والأرض حنيفاً مسلماً "-:
" اللهم! لك الحمد... " الحديث. وجنادة هذا؛ قال الحافظ:
" صدوق له أغلاط ". وبقية رجال إسناده رجال مسلم؛ غير شيخ الطبراني عبد الرحمن بن سَلْم الرازي؛ فإني لم أقف له على ترجمة!
وذكر: " وجهت وجهي... " في هذا الحديث غريب، ولعله من أغلاط
جُنادة! وأما قوله بعد التكبير؛ فقد توبع عليه، كما تراه في الرواية الثانية في الكتاب. وقد تابع أبا الزبير: سليمان بن أبي مسلم الأحول:
أخرجه البخاري في "صحيحه " (3/2- 4 و 11/99 و 13/366- 367
و 399) ، وفي "أفعال العباد" (ص 96) ، ومسلم وأبو عوانة، والنسائي (1/240) ،
والدارمي (1/348) ، وابن ماجه (08/41- 409) ، وأحمد (رقم 3368) ،
والطبراني في "معجمه الكبير" كلهم أخرجوه من طريق سليمان الأحول عن طاوس... به.
وأخرجه البيهقي أيضا (3/4- 5) .
وتابعه قيس بن سعد المكي بزيادة فيه؛ وهو:
صحيح أبي داود (746)