تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مصائب وتکالیف کے ظاہری اسباب کے علاوہ کچھ روحانی اور باطنی اسباب بھی ہوتے ہیں۔ اگر عقائد واخلاق کی ان خرابیوں سے پرہیز کیا جائے تو اللہ تعالی ظاہری اسباب کو تبدیل فرمادیتا ہے۔
(2) بے حیائی کے نتیجے میں آتشک اور سوزاک جیسی بیماریاں پیدا ہوئیں۔ پھر ایڈز اور ہیپاٹائٹس وغیرہ کی بیماریاں سامنے آگئیں۔ کوئی معاشرہ بے حیائی سے جتنا محفوظ ہے، اسی قدر اس میں یہ بیماریاں کم ہیں۔
(3) ناپ تول میں کمی لالچ اور حرص کی وجہ ہوتی ہے۔ اس سے دوسروں کا حق مارا جاتا ہے اس لیے اس کی سزا بھی مالی نقصان اور قحط کی صورت ملتی ہے۔
(4) زکاۃ مال میں برکت کا باعث ہے۔ جب معاشرے میں زکاۃ دینے والے کم ہوجائیں تو اس کی سزا میں معاشرے کا رزق روک لیاجاتا ہے۔
(5) دوسروں پر رحم کرنے والے پر اللہ تعالی رحم کرتا ہے۔ اس کے برعکس دوسروں کو تکلیف پہنچانے والا۔ ان کی مدد نہ کرنے والا اور ان کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے والا اللہ کے رحم کا مستحق نہیں رہتا۔
(6) اللہ اور اس کے رسول کے عہد سے مراد اسلامی ملک میں رہنے والے غیر مسلموں کے جائز حقوق کا تحفظ ہے۔ اس کے علاوہ اسلام قبول کرنے والا اللہ کی عبادت اور اس کے رسول اللہﷺ کی اطاعت کا عہد کرتا ہے۔ اس عہد کی خلاف ورزی بھی قوم کو سزا کا مستحق بنا دیتی ہے۔
(7) شریعت پر عمل کرنے سے اختلافات ختم ہوجاتے ہیں جس کے برعکس دنیوی مفاد کے لیے اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے خود غرضی کی عادت پختہ ہوتی ہے اور ایثار اور ہمدردی کے جذبات ختم ہوجاتے ہیں اس کے نتیجے میں معمولی بات پر اختلافات شدت اختیار کر لیتے ہیں۔
(8) قومی صحت کی حفاظت کے لیے ملک سے فحاشی کے تمام ذرائع مثلاً فحش لٹریچر، ساز، رقص، فلمیں، مرد وعورت کا اختلاط، ریڈیو اور ٹی وی وغیرہ کے بے ہودہ پروگرام وغیرہ کا سدباب ضروری ہے۔
(9) معاشی آسودگی اور اقتصادی ترقی کے لیے ملک میں دیانت داری کا چلن ضروری ہے۔
(10) پانی کی قلت موجودہ دور کا ایک اہم مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ اگر زکاۃ کے نظام کوصحیح بنیادوں پر قائم کرکے اسے شریعت کے مطابق چلایا جائے تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ ملکی دفاع کی مضبوطی کے لیےعقیدہ توحید کی توضیح و تبلیغ اور توحید کے صحیح تصور کو پختہ کرنا چاہیے۔ تب اللہ کی وہ مدد آئے گی جس کا وعدہ قرآن میں کیا گیا ہے۔ فرقہ، پارٹی، علاقے، زبان اور قبیلے کی بنیاد پر انتشار دور حاضر کا بہت بڑا المیہ ہے۔ اس کا علاج ہر سطح پر شریعت کا مکمل نفاذ ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 167 :
رواه ابن ماجه ( 4019 ) و أبو نعيم في " الحلية " ( 8 / 333 - 334 ) عن
ابن أبي مالك عن أبيه عن عطاء بن أبي رباح عن عبد الله ابن عمر قال :
أقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : فذكره .
قلت : و هذا سند ضعيف من أجل ابن أبي مالك و اسمه خالد بن يزيد بن عبد الرحمن
ابن أبي مالك و هو ضعيف مع كونه فقيها و قد اتهمه ابن معين كما في " التقريب "
.
و قال البوصيري في " الزوائد " .
" هذا حديث صالح للعمل به ، و قد اختلفوا في ابن أبي مالك و أبيه " .
قلت الأب لا بأس به ، و إنما العلة من ابنه ، و لذلك أشار الحافظ ابن حجر في
" بذل الماعون " لضعف الحديث بقوله ( ق 55 / 2 ) :
" إن ثبت الخبر " .
قلت : قد ثبت حتما فإنه جاء من طرق أخرى عن عطاء و غيره ، فرواه ابن أبي الدنيا
في " العقوبات " ( ق 62 / 2 ) من طريق نافع بن عبد الله عن فروة بن قيس المكي
عن عطاء بن أبي رباح به .
قلت : و هذا سند ضعيف ، نافع و فروة لا يعرفان كما في " الميزان " .
و رواه الحاكم ( 4 / 540 ) من طريق أبي معبد حفص بن غيلان عن عطاء بن أبي رباح
به و قال : " صحيح الإسناد " و وافقه الذهبي .
قلت : بل هو حسن الإسناد فإن ابن غيلان هذا قد ضعفه بعضهم ، لكن وثقه الجمهور ،
و قال الحافظ في " التقريب " :
" صدوق فقيه ، رمي بالقدر " .
و رواه الروياني في " مسنده " ( ق 247 / 1 ) عن عثمان بن عطاء عن أبيه عن
عبد الله بن عمر مرفوعا .
و هذا سند ضعيف ، عطاء هذا هو ابن أبي مسلم الخراساني و هو صدوق لكنه مدلس
و قد عنعنه .
و ابنه عثمان ضعيف كما في " التقريب " .
فهذه الطرق كلها ضعيفة إلا طريق الحاكم فهو العمدة ، و هي إن لم تزده قوة فلا
توهنه .
( السنين ) جمع سنة أي جدب و قحط .
( يتخيروا ) أي يطلبوا الخير ، أي و ما لم يطلبوا الخير و السعادة مما
أنزل الله .
و لبعض الحديث شاهد من حديث بريدة بن الحصيب مرفوعا بلفظ :
" ما نقض قوم العهد قط إلا كان القتل بينهم ، و ما ظهرت فاحشة في قوم قط إلا
سلط الله عز و جل عليهم الموت ، و لا منع قوم الزكاة إلا حبس الله عنهم القطر "