تشریح:
(1) اوقات کی تعلیم کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر اول اور آخر وقت میں نمازیں پڑھ کر دکھائیں۔ اس سے تعلیم میں عملی اسوہ کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
(2) نماز میں افضل یہ ہے کہ اول وقت میں ادا کی جائے لیکن آخری وقت میں بھی ادا کرنے سے ادا ہوجاتی ہے۔
(3) تعلیم کے لیے یا کسی اور جائز مقصد کے پیش نظر افضل کام کو چھوڑ کر غیر افضل جائز کام اختیار کیا جا سکتا ہے لیکن اسے مستقل عادت بنانا درست نہیں۔
(4) نماز ظہر کا وقت سورج ڈھلتے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ ڈھلنے کا مطلب یہ ہے کہ سورج اپنی سب سے زیادہ بلندی تک پہنچ کر نیچے آنا شروع ہوجائے۔ اس کا اندازہ سائے سے ہوتا ہے جب کہ دیوار وغیرہ کا سایہ مشرق کی طرف زمین پر آجائے۔
(5) ظہر کی نماز ٹھنڈی کر نے کا مطلب یہ ہے کہ گرمی کی شدت کم ہونے کا انتظار کیا جائے۔ موسم گرما میں دوپہر کو بہت شدت کی گرمی ہوتی ہے۔ اس لیے زوال کے فورا بعد نماز پڑھنے کے بجائے کچھ ٹھر کر ادا کی جاسکتی ہے البتہ سردی کے موسم میں انتظار کی ضرورت نہیں،
(6) اس حدیث میں عصر کا وقت دونوں دنوں میں ملتے جلتے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے یعنی فرمایا گیا ہے کہ سورج بلند تھا بلندی کی وضاحت آئندہ احا دیث سے ہوگی۔
(7) مغرب کا وقت سورج کی ٹکیا افق سے غائب ہونے پر شروع ہوتا ہے اور شفق ختم ہونے پر ختم ہوجاتا ہے۔ شفق سے مراد وہ سرخی ہے جو سورج غروب ہونے کے بعد مغرب کی طرف آتی ہے۔
(8) عشاء کا وقت شفق غروب ہونے سے شروع ہوتا ہے۔ اس کا آخری وقت ا س حدیث کی روشنی میں تہائی رات معلوم ہوتا ہے۔ بعض دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عشاء کی نماز آدھی رات تک ادا کی جا سکتی ہے مثلاً: صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی حدیث موجود ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے اوقات بیان کرتے ہوئے عشاء کی نماز کے بارے میں فرمایا: (وَوَقْتُ صَلَاةِ الْعِشَاءِ اِليٰ نِصْفِ الَّيْل) (صحيح مسلم، المساجد، باب أوقات الصلوت الخمس، حديث:612) اور عشاء كی نماز کا وقت آدھی رات تک ہے۔
(9) فجر کی نماز کا وقت صبح صادق سے شروع ہوتا ہے لیکن سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے پڑھ لینی چاہیے البتہ کسی عذر کی بناء پر تاخیر ہو جائے تو سورج طلوع ہونے سے پہلے ایک رکعت ادا ہو جائے تو بروقت ادائیگی ہی سمجھی جائے گی۔ ارشاد نبوی ہے: جسے سورج نکلنے سے پہلے نماز صبح کی ایک رکعت مل گئی اسے صبح کی نماز مل گئی اور جسے سورج غروب ہونے سے پہلے عصر کی ایک رکعت مل گئی اسے عصر کی نماز مل گئی۔ (صحيح البخاري، مواقيت الصلاة، باب من أدرك من الفجر ركعة، حديث:579 وصحيح مسلم، المساجد، باب من أدرك ركعة من الصلوة فقد أدرك تلك الصلاۃ، حدیث:608)
(10) نماز کے اوقات ان دو ایام میں ادا شدہ نمازوں کے اوقات کے درمیان میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہر نماز کے ابتدائی اور آخری اوقات بتا دیے گیے ہیں جو شخص ان دو اوقات کے درمیان کسی وقت نماز ادا کرلے گا اس کی نماز ادا ہوجائے گی۔ اس کا یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہیےکہ اول وقت کو چھوڑ کر وقت کی ابتداء اور انتہاء کے عین درمیان کے وقت کو نماز کے لیے متعین کردیا جائے کیونکہ اگر یہ مطلب قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صرف درمیان کے تھوڑے سے وقت میں نماز ادا کرنی چاہیے۔ اس طرح نماز کے اوقات میں جو گنجائش ہے وہ ختم ہوجائے گی مثلاً اگر مذکورہ دو دنوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پہلے دن تین بجے ادا کی ہواور دوسرے دن پانچ بجے تو اس جملہ سے یہ مطلب لینا درست نہیں کہ صحیح وقت چار بجے ہے ورنہ یہ لازم آئے گا کہ ان دونوں دنوں میں نمازیں بے وقت ادا ہوئیں۔ اور یہ بات صریحاً غلط ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: وصله أحمد وغيره بإسناد صحيح عنه) .
وصله الامام أحمد (3/351- 352) : حدثنا عبد الله بن الحارث: حدثني ثور
ابن يزيد عن سليمان بن يسار... به نحو حديث أبي موسى.
وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال " الصحيح ".
وأخرجه النسائي (1/88) ، والطحاوي (1/88) - عن عبد الله بن الحارث.
والبيهقي (1/372) من طريق أحمد.
ولجابر حديث آخر في إمامة جبريل للنبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وفيه:
أنه صلى به المغرب في اليومين في وقت واحد؛ حين غابت الشمس.
رواه بُرْدُ بن سنان عن عطاء بن أبي رباح عنه.
(2/259)
ورواه وهب بن كيسان أيضا عن جابر؛ وقد علقه المصنف فيما تقدم (رقم
419) .
واعلم أنه لا تعارض بين حديثي جابر رضي الله عنه، كما لا تعارض بين
أحاديث الباب؛ فإن في حديثه هذا، وحديث أبي موسى قبله، والأحاديث
الأخرى الآتية حكماً زائداً على الأحاديث المتقدمة في إمامة جبريل للنبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛
ففي هذه: أن وقت المغرب يمتذُ إلى أن يغيب الشفق، فوجب الأخذ بها ولا سيما
أنها متأخرة عن تلك؛ لأن سؤال النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عن المواقيت كان في المدينة، في
مسجده عليه السلام، وإمامة جبريل له عليهما السلام كانت بمكة عند البيت؛
كما سبق في حديث ابن عباس.
هذا إذا كان حديث جبريل عليه السلام إنما ورد في بيان وقت الجواز؛ فقد
قيل: إنه إنما أراد بيان وقت الاختيار، لا وقت الجواز. واستحسنه النووي في
"المجموع " (3/131) . والله أعلم.