اللہ رب العزت نے انسانیت کو پیدا کرنے کے بعد شُتر بے مہار نہیں چھوڑ دیا بلکہ ان کی رہنمائی کے لیے انبیائے کرام کا سلسلہ جاری کیا اور ہر نبی کو صحائف وغیرہ سے نوازا گیا، اور آخری نبی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تاقیامت نبی بنا کر بھیجا اور تعلیمات بھی قیامت تک کے لیے جاری فرما دی اور کہا اس کے بعد کسی دین کی ضرورت نہیں ہے

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾ (المائدۃ: 3)

’’ آج کفار تمہارے دین سے ناامید ہوگئے، خبردار! تم ان سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا، آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ پس جو شخص شدت کی بھوک میں بے قرار ہو جائے بشرط یکہ کسی گناه کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والااور بہت بڑا مہربان ہے ‘‘

اور ایسی کتاب دے کر مبعوث کیا جس کی مثال 1400 سال سے دنیا میں کوئی پیش نہیں کر سکا ۔ اور قیامت تک پیش نہیں کر سکے گا۔فرمان ربانی ہے: ﴿قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ﴾ (الاسراء: 88)

’ کہہ دیجیئے کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کے مثل ﻻنا چاہیں تو ان سب سے اس کے مثل لانا ناممکن ہے گو وه (آپس میں) ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں ‘‘

اللہ رب العزت نے صرف اسی کتاب یعنی قرآن مجید پر انحصار نہیں رکھا بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بھی ہمارے لیے نمونہ بنا دی، فرمان عالی شان ہے: ﴿ لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا﴾(الاحزاب:21) ’’ یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے ‘‘

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول، فعل یا عمل اور کوئی تقریر وغیرہ ہمارے لیے حجت ہے اور اس کے مطابق عمل کرنا لازم اور ضروری ہے جسے ہم Hadees Mubarak یا Hadees Mubarak in Arabic with Urdu Translation تلاش کر سکتے ہیں، اور حجت حدیث پر سینکڑوں احادیث مبارکہ اپنی تفصیلات کے ساتھ موجود ہیں جس میں سے چند ایک درج کی جاتی ہیں: «مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي، وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ»(صحیح البخاری: حدیث نمبر 71)

’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عنایت کر دیتا ہے۔ اور میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور دینے والا تو اللہ ہی ہے۔ اور (اسلام کی) یہ جماعت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی، جو ان کا مخالف ہو گا انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم، یعنی قیامت آ جائے۔‘‘

اس حدیث کی تفصیل mohaddis.com سے مل جائے گی اور دیگر احادیث کے لیے Hadees Mubarak یا Hadees Mubarak in Arabic with Urdu Translation ٹائیپ کریں۔اور حجت حدیث پر ایک اور حدیث درج کی جاتی ہے

((حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ وَسَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَاهُ أَنَّهُمَا كَلَّمَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا لَيَالِيَ نَزَلَ الْجَيْشُ بِابْنِ الزُّبَيْرِ فَقَالَا لَا يَضُرُّكَ أَنْ لَا تَحُجَّ الْعَامَ وَإِنَّا نَخَافُ أَنْ يُحَالَ بَيْنَكَ وَبَيْنَ الْبَيْتِ فَقَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ دُونَ الْبَيْتِ فَنَحَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدْيَهُ وَحَلَقَ رَأْسَهُ وَأُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ الْعُمْرَةَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ أَنْطَلِقُ فَإِنْ خُلِّيَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْبَيْتِ طُفْتُ وَإِنْ حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ فَعَلْتُ كَمَا فَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ فَأَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ ثُمَّ سَارَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا شَأْنُهُمَا وَاحِدٌ أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ حَجَّةً مَعَ عُمْرَتِي فَلَمْ يَحِلَّ مِنْهُمَا حَتَّى حَلَّ يَوْمَ النَّحْرِ وَأَهْدَى وَكَانَ يَقُولُ لَا يَحِلُّ حَتَّى يَطُوفَ طَوَافًا وَاحِدًا يَوْمَ يَدْخُلُ مَكَّةَ.)) (صحیح البخاری: حدیث نمبر 1807)

’’ حضرت عبید اللہ بن عبداللہ اور حضرت سالم بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان دنوں گفتگوکی جب (حجاج کا) لشکر حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف مکہ پہنچ چکا تھا۔ ان دونوں نے عرض کیا: اگر آپ اس سال حج نہ کریں تو آپ کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ ہمیں خطرہ ہے کہ مبادا آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ کھڑی کردی جائے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: "ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نکلے تو کفار قریش بیت اللہ کے سامنے رکاوٹ بن گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے حالات میں اپنی قربانی ذبح کردی اور سر مبارک منڈوادیا۔ لہٰذا میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں عمرہ واجب کرچکا ہوں۔ اگر اللہ نے چاہا تو میں ضرور جاؤں گا۔ اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہ ہوئی تو میں بیت اللہ کا طواف کروں گا۔ اس کے برعکس اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان رکاوٹ آگئی تو میں وہی عمل کروں گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اور میں اس وقت آپ کے ہمراہ تھا۔ چنانچہ انھوں نے ذوالحلیفہ سے عمرے کا احرام باندھ لیا۔ پھر تھوڑی دیر چل کر فرمانے لگے کہ حکم تو دونوں کا ایک ہے، اس لیے میں تمھیں گواہ بناتا ہوں۔ کہ میں نے اپنے عمرے کے ساتھ حج بھی واجب کرلیاہے۔ پھر انھوں نے دونوں کا احرام کھولا حتیٰ کہ قربانی کے دن احرام سے باہر ہوئے اور قربانی ذبح کی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ احرام نہ کھولا جائے حتیٰ کہ مکہ میں داخل ہو کر ایک طواف کر لیا جائے۔ ‘‘

مزید احادیث کے لیے نیٹ وغیرہ پر Hadees Mubarak یا Hadees Mubarak in Arabic with Urdu Translation ملاحظہ فرمائیں۔