تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) نبیﷺ کی جدو جہد کی بنیاد خلوص اور انسانوں کی خیر خواہی پر ہوتی ہے۔ علماء کو بھی اسی بنیاد پر محنت کرنی چاہیے۔
(2) صحابہ وتابعین مخلص مومن تھے ان سے اختلاف کرنے والے غلطی پر تھے۔
(3) مومن فتنوں کو پہچانتا ہے اس لیے انھیں قبول نہیں کرتا اگرچہ بے انتہا مشکلات آجائیں۔
(4) فتنوں کے دور میں ایمان کی حفاظت کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے۔
(5) معاملات میں صحیح اور غلط کا معیار یہ ہے کہ دوسروں سے ایسا سلوک کرو جیسا تم اپنے آپ سے کیا جانا پسند کرتے ہو مثلاً: جس طرح ایک شخص یہ پسند کرتا ہے کہ جب اسے مشورے کی ضرورت پڑے تو صحیح مشورہ دیا جائے اسی طرح اسے چاہیے کہ دوسروں کو صحیح مشورہ دے۔ جس طرح وہ چاہتا ہے کہ اسے کوئی دھوکہ نہ دے اسی طرح اسے چاہیے کہ وہ دوسروں کو دھوکہ نہ دے۔
(6) اسلامی سلطنت میں ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے شخص کا خلا فت کے استحقاق کا دعوی ٰ لے کر کھڑا ہونا مسلمانوں میں انتشار وافتراق کا باعث ہے۔
(7) پہلے خلیفہ کے بعد مسلمانوں کے اہل حل وعقد دوسرا خلیفہ منتخب کریں گے۔ کسی کو خود بخود خلافت کا دعویٰ لے کر کھڑا نہیں ہونا چاہیے۔
(8) موجود خلیفہ غلطی کرے تو اسے متنبہ کرنا ضروری ہے، جیسے امام مالک اور امام احمد بے حنبل رحمۃ اللہ علیہما وغیرہ نے حکام کی غلطیوں پر سخت تنقید کی لیکن یہ مطالبہ کبھی نہیں کیا کہ حکومت ہمیں دے دو۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 430 :
أخرجه مسلم ( 6 / 18 ) و السياق له و النسائي ( 2 / 185 ) و ابن ماجه ( 2 / 466
- 467 ) و أحمد ( 2 / 191 ) من طرق عن الأعمش عن زيد بن وهب عن عبد الرحمن
بن عبد رب الكعبة قال :
دخلت المسجد ، فإذا عبد الله بن عمرو بن العاص جالس في ظل الكعبة ، و الناس
مجتمعون عليه ، فأتيتهم فجلست إليه ، فقال :
" كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر ، فنزلنا منزلا ، فمنا من يصلح
خباءه ، و منا من ينتضل ، و منا من هو في جشره ، إذ نادى منادي رسول الله صلى
الله عليه وسلم : الصلاة جامعة ، فاجتمعنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم
فقال : " فذكره . و زاد في آخره : " فدنوت منه ، فقلت له : أنشدك الله آنت سمعت
هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ فأهوى إلى أذنيه و قلبه بيديه ، و قال :
سمعته أذناي ، و وعاه قلبي ، فقلت له : هذا ابن عمك معاوية يأمرنا أن نأكل
أموالنا بيننا بالباطل ، و نقتل أنفسنا ، و الله يقول : ( يا أيها الذين آمنوا
لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم ، و لا تقتلوا
أنفسكم إن الله كان بكم رحيما ) قال : فسكت ساعة ثم قال : أطعه في طاعة الله ،
و اعصه في معصية الله " .
و ليس عند غير مسلم قوله : " فقلت له هذا ابن عمك ... " الخ .
ثم أخرجه أحمد من طريق الشعبي عن عبد الرحمن بن عبد رب الكعبة به ، و كذا رواه
مسلم في رواية و لم يسوقا لفظ الحديث ، و إنما أحالا فيه على حديث الأعمش .
غريب الحديث
1 - ( فيرقق بعضها بعضا ) . أي يجعل بعضها بعضا رقيقا ، أي : خفيفا لعظم ما
بعده ، فالثاني يجعل الأول رقيقا .
2 - ( صفقة يده ) أي : معاهدته له و التزام طاعته ، و هي المرة من التصفيق
باليدين ، و ذلك عند البيعة بالخلافة .
3 - ( ثمرة قلبه ) أي خالص عهده أو محبته بقلبه .
4 - ( فاضربوا عنق الآخر ) . قال النووي :
" معناه : ادفعوا الثاني فإنه خارج على الإمام ، فإن لم يندفع إلا بحرب ،
و قاتل ، فقاتلوه . فإن دعت المقاتلة إلى قتله ، جاز قتله ، و لا ضمان فيه لأنه
ظالم متعد في قتاله " .
و في الحديث فوائد كثيرة ، من أهمها أن النبي يجب عليه أن يدعو أمته إلى الخير
و يدلهم عليه ، و ينذرهم شر ما يعلمه لهم ، ففيه رد صريح على ما ذكر في بعض كتب
الكلام أن النبي من أوحي إليه ، و لم يؤمر بالتبليغ !