تشریح:
فائدہ: یہ روایت ضعیف ہے، شیخ البانی نے بھی اسے ’’منکر‘‘ کہا ہے تاہم جن کے نزدیک صحیح ہے انہوں نے اس میں توجیہ کی ہے مثلاً علامہ خطابی کہتے ہیں کہ اس حکم کی دو توجیہات ہوسکتی ہیں۔ اول یہ کہ جو شخص مدینہ منورہ میں بیت اللہ یعنی خانہ کعبہ کی طرف منہ کرے گا وہ لازماً بیت المقدس کی طرف پشت کرے گا۔ دوسری توجیہ یہ ہوسکتی ہے کہ چونکہ بیت المقدس بھی مسلمانوں کا قبلہ رہا ہے اس لیے اس کا احترام بھی ضروری ہے اور یہ نہی تنزیہی ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: منكر، وأبو زيد ليس بالمعروف، كما قال ابن المديني وغيره. وقال الحافظ ابن حجر: حديث ضعيف ) .
[إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: حدثنا وهيب: حدثنا عمرو بن يحيى عن أبي زيد] .
وقد سكت عليه أبو داود كما ترى! وتبعه المنذري في مختصره ! وقول ابن المديني المذكور نقله الحافظ في تهذيب التهذيب . وقال في مختصره التقريب : قيل: اسمه الوليد، مجهول . وقال الذهبي في مختصر سنن البيهقي : لا يدْرى من هو؟! . ولذلك قال الحافظ في الفتح : حديث ضعيف؛ لأن فيه راوياً مجهول الحال .
ومن طريقه: رواه ابن ماجه أيضاً (1/134) ، والبيهقي في سننه للكبرى (1/91) .
ومما سبق تعلم أن قول النووي في المجموع (2/80) : إسناده جيد ! غير جيد، وإنما غره أبو داود بسكوته.