تشریح:
اصل اذان جو کہ امام کہ منبر پربیٹھنے کے وقت کی ہے پہلی اذان ہے۔ اور اقامت یعنی جماعت کے لئے تکبیر کو دوسری اذان کہا گیا ہے۔ اور خطبہ شروع ہونے سے کچھ وقت پہلے لوگوں کو آگاہ کرنے کےلئے جو آذان شروع کرائی گئی وہ تیسری آذان ہوئی۔ جو کہ عملاً پہلی مگر رتبہ میں تیسری ہے۔ اسے عرف عام میں دوسری آذان اور تاریخی لہاظ سے آذان عثمانی کہتے ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی اکثریت نے اسے قبول کیا ہے۔ اور یہ عالم اسلام میں اسی دور سے جاری وساری ہے۔ یہ آذان لوگوں کو متنبہ کرنے کےلئے تھی۔ جیسے کہ آذان فجر سے کچھ پہلے متنبہ کرنے کےلئے دور نبوت میں آذان کہلوائی گئی۔ ابن ابی شیبہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے اس آذان کو بدعت کہا ہے۔اصحاب الحدیث کے ہاں ایسے مسائل میں توسع ہے۔ افضل اور راحج یہی ہے۔ کہ دور نبوت کا عمل اختیار کیا جائے۔ حسب ضرورت حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معمول اپنا لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ویسے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آذان مسجد نبوی سے ایک میل دور مقام زورا میں کہلوائی تھی۔ وہاں بازار لگتا تھا اور لوگوں کو نماز کے وقت کا علم نہیں ہوتا تھا۔ یہ آذان اتنی پہلے کہی جاتی تھی کہ لوگ یہ آذا ن سن کر سامان سمیٹتے۔ گھر جاتے۔ غسل اور وضو کرکے لباس بد ل کر خطبہ شروع ہونے سے پہلے مسجد نبوی میں آجاتے۔ لہذا اگر آذان عثمانی ہی کہلانی ہو تو اس پس منظر کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ ورنہ خطبے سے چند منٹ پہلے امام کے منہ کےسامنے کھڑے ہوکر آذان کہنا آذان عثمانی کی متابعت ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ یہ طبع ذاد اور ایجاد بند ہ ہے۔ زورا (زاء کی فتحہ وائو ساکن اور آخر میں الف ممدودہ) بازار مدینہ کے قریب ایک جگہ کا نام تھا جو مسجد نبوی ﷺ سے کوئی ایک میل کے فاصلے پرتھی۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وأخرجه البخاري في صحيحه . وقال الترمذي: حديث حسن صحيح ) . إسناده: حدثنا محمد بن سَلَمَةَ المرادي: ثنا ابن وهب عن يونس عن ابن شهاب: أخبرني السائب بن يزيد.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات على شرط الشيخين؛ غير المرادي؛ فهو على شرط مسلم وحده؛ وقد أخرجه البخاري كما يأتي. والحديث أخرجه البخاري (2/8) ، والنسائي (1/207) ، والترمذي (2/392) ، وابن الجارود (290) ، والبيهقي (3/192) ، وأحمد (3/449) من طرق عن الزهري. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح .