قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن أبي داؤد: كِتَابُ التَّطَوُّعِ (بَابُ فِي رَفْعِ الصَّوْتِ بِالْقِرَاءَةِ فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ)

حکم : صحیح 

1329. حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ح، وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ لَيْلَةً، فَإِذَا هُوَ بِأَبِي بَكْرٍ -رَضِي اللَّهُ عَنْهُ- يُصَلِّي يَخْفِضُ مِنْ صَوْتِهِ، قَالَ: وَمَرَّ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَهُوَ يُصَلِّي رَافِعًا صَوْتَهُ، قَالَ: فَلَمَّا اجْتَمَعَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: >يَا أَبَا بَكْرٍ! مَرَرْتُ بِكَ وَأَنْتَ تُصَلِّي تَخْفِضُ صَوْتَكَ؟<، قَالَ: قَدْ أَسْمَعْتُ مَنْ نَاجَيْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: وَقَالَ لِعُمَرَ: >مَرَرْتُ بِكَ وَأَنْتَ تُصَلِّي رَافِعًا صَوْتَكَ؟<، قَالَ: فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أُوقِظُ الْوَسْنَانَ! وَأَطْرُدُ الشَّيْطَانَ! زَادَ الْحَسَنُ فِي حَدِيثِهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >يَا أَبَا بَكْرٍ! ارْفَعْ مِنْ صَوْتِكَ شَيْئًا<، وَقَالَ لِعُمَرَ: >اخْفِضْ مِنْ صَوْتِكَ شَيْئًا<.

مترجم:

1329.

سیدنا ابوقتادہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات نبی کریم ﷺ نکلے اور ابوبکر ؓ کے پاس سے گزرے، وہ نماز پڑھ رہے تھے اور ان کی آواز دھیمی تھی۔ اور عمر بن خطاب ؓ کے پاس سے گزرے، وہ بھی نماز پڑھ رہے تھے، ان کی آواز بلند تھی۔ جب وہ دونوں نبی کریم ﷺ کے پاس اکٹھے ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے ابوبکر! میں تمہارے پاس سے گزرا، تم نماز پڑھ رہے تھے اور تمہاری آواز دھیمی تھی؟“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے جس سے مناجات کی اسے سنایا۔ پھر آپ ﷺ نے عمر سے کہا: ”میں تمہارے پاس سے گزرا، تم بلند آواز سے نماز پڑھ رہے تھے؟“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں سوتے کو جگا رہا تھا اور شیطان کو بھگا رہا تھا۔ حسن نے اپنی روایت میں اضافہ کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”ابوبکر! اپنی آواز کچھ بلند کیا کرو۔“ اور عمر سے فرمایا: ”تم اپنی آواز کچھ دھیمی رکھا کرو۔“