تشریح:
1۔ لیلۃ القدر کی عبادت دیگر راتوں کے مقابلے میں ہزار مہینے کی عبادت سے افضل ہے۔ (لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ) (القدر۔3) اور یہ مدت تراسی سال چار مہینے بنتی ہے۔
2۔ یہ دعویٰ بالجزم ہو تو قطعا ً صحیح نہیں۔ کہ یہ رات ستایئسویں رمضان ہی کو ہوتی ہے۔ بلکہ امکان ہوتا ہے۔ اسی طرح دیگر طاق راتوں میں بھی ممکن ہے۔
3۔ مذکورہ علامات اگرچہ رات گزر جانے کے بعد کی ہے۔ اس میں فائدہ یہ ہے کہ اگر اس رات سے استفادہ کیا ہو تو انسان شکر کرے۔ اگر محروم رہا ہو تو آئندہ کےلئے شوق کرے۔
4۔ یہ علامت حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کسی سال ستایئسویں کی صبح نظر آئی ہوگی۔ تو اسی سے انہوں نے یقین کرلیا۔ کہ ہر سال یہی رات لیلۃ القدر ہوتی ہے۔ مگر صحیح یہ ہے کہ یہی لیلۃ القدر آخری عشرہ کی طاق راتوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح. وأخرجه مسلم في صحيحه . وقال الترمذي: حسن صحيح ) .إسناده: حدثنا سليمان بن حرب ومسدد- المعنى- قالا: ثنا حماد عن عاصم.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ إلا أنه إنما أخرج لعاصم- وهو ابن بَهْدَلَةَ- مقروناً. وأما مسدد؛ فهو من رجال البخاري فقط. وحماد: هو ابن زيد. والحديث أخرجه أحمد (5/131) ، وابنه (5/130) من طرق أخرى عن حماد بن زيد... به. وأخرجه أحمد (5/130) ، ومسلم (3/173- 174) عن سفيان بن عيينة عن عبدة وعاصم عن زر ... به. وهما من طريق شعبة عن عبدة بن أبي لًبَابةَ وحده عن زر... به. وأحمد أيضا (5/132) ، وابنه (5/131) ، والترمذي (1/152) من طرق أخرى عن عاصم وحده. وقال الترمذي: حسن صحيح . وله عند الطيالسي (542) ، وأحمد (5/130) ، وابنه (5/131) طرق أخرى عن زِر... به. وللحديث شاهد من حديث عبادة بن الصامت في علامة الليلة بلفظ: ... وإن أمارتها: أن الشمس صَبِيحَتَها تَخْرُجُ مْسْتَوِيةً ليس لها شعاع، مثلَ القمر ليلة البدر . أخرجه أحمد (5/324) ، وابن نصر (ص 108) بإسناد جيده؛ لولا أن فيه انقطاعاً بين عبادة وخالد بن معدان. وله شاهد آخر عن ابن مسعود... مرفوعاً به نحوه. أخرجه الطيالسي (394) عن أبي يعفور عن ابن أبي عضرب عنه. ورجاله ثقات؛ غير ابن أبي عضرب هذا؛ فلم أعرفه!