تشریح:
رسول اللہ ﷺ کا مقام یہ ہے۔ کہ آپ کی پکار کا فوراً جواب دینا فرض تھا۔ خواہ انسان نماز میں بھی ہو۔ اور اب یہ ہے کہ مومن کو چاہیے کہ کتاب وسنت کے احکام سن کر بلا حیل وحجت ان پر عمل کرے۔ اور تردد اور پس وپیش کی کیفیت سے باز رہے اور اسی میں حیات اور نجات ہے۔
2۔ اعظم کے معنی مقدار میں بڑا ہونا ہی نہیں ہیں۔ بلکہ مقام ورتبہ کے لہاظ سے بھی بڑے کو اعظم کہتے ہیں۔ اس سے زبان زد عوام روایت (فإذا رايتهم اختلافا فعليكم بالسواد الأعظم) (سنن ابن ماجة۔ الفتن۔ حدیث:3950) کے معنی بھی متعین ہوجاتے ہیں۔ سواد اعظم کی اتباع کرو یعنی وہ جماعت جو افضل ہو۔ یہ روایت اگرچہ سخت ضعیف ہے۔ لیکن اگر اسے کسی درجے میں تسلیم کر لیا جائے۔ تو اعظم کے معنی یہاں اکثر کے نہیں۔ افضل کے ہوں گے۔ اور افضلیت اتباع قرآن وسنت میں ہے نہ کہ بھیڑ جمع ہوجانے میں۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وقد أخرجه في صحيحهماإسناده: حدثنا عبيد الله بن معاذ: ثنا خالد: ثنا شعبة عن خبَيْب بن عبد الرحمن قال: سمعت حفص بن عاصم يحدث عن أبي سعيد بن المُعَلى.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات على شرط الشيخين؛ وقد أخرجه البخاري كما يأتي. والحديث أخرجه النسائي (1/145) من طريق أخرى عن خالد- وهو ابن َهْران الحَذأء- عن شعبة-.- به وأخرجه الطيالسي (1266) : حدثنا شعبة.-. به. البخاري (8/119 و 9/49) ، والطحاوي (2/77) ، وأحمد (4/211) من طرق أخرى عن شعبة... به.