تشریح:
فائدہ: جس شخص کی جماعت سے کوئی رکعت یا رکعات رہ گئی ہوں وہ صرف فوت شدہ رکعات ہی دہرائے، اس پر کوئی سجدہ سہو وغیرہ نہیں ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحابہ کی طرف منسوب اس قول کو ضعیف کہا ہے کہ جو جماعت کے ساتھ صرف ایک رکعت پائے، تو وہ بقیہ رکعتیں پوری کرنے کے بعد سجدۂ سہو بھی کرے، ایسے حضرات کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ مسبوق شخص امام کے ساتھ تشہد بیٹھتا ہے جب کہ ابھی اس کی صرف ایک رکعت ہی ہوئی ہوتی ہے۔ یعنی ابھی وہ تشہد بیٹھنے کی حالت کو نہیں پہنچا ہوتا، لیکن اسے امام کے ساتھ تشہد بیٹھنا پڑ جاتا ہے۔ لیکن یہ مسلک صحیح نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےایسے نہیں کیا۔ علاوہ ازیں اسے تشہد میں امام کی متابعت کی وجہ سے بیٹھنا پڑتا ہے نہ کہ سہو کی وجہ ہے۔
الحکم التفصیلی:
(إسناده صحيح، وكذا قال الشوكاني) . إسناده: حدثنا هُدْبة بن خالد: ثنا همَّام عن قتادة عن الحسن وعن زرارة بن أوفى. وهذا إسناد صحيح، رجاله رجال الشيخين، وهذا من طريق زرارة. وأما من طريق الحسن عنه؛ فإنه منقطع؛ كما في التلخيص (2/294) . وصحح إسناده الشوكاني أيضا، ولكنه جعله لحديث للمصنف آخر، إسناده ضعيف كما بينت ذلك في الكتاب الأخر (رقم 21) . والحديث أخرجه البيهقي (2/352) من طريق المؤلف. 141- قال أبو داود: أبو سعيد الخدري وابن الزبير وابن عمر يقولون: من أدرك الفرد من الصلاة؛ عليه سجدتا السهو . (قلت: لم أقف على أسانيدها) . قال في عون المعبود : وهذه الآثار قد تتبعت في تخريجها؛ لكن لم أقف [على]من أخرجها موصولأ . قلت: قال البيهقي عقيها: وحديث رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أولى أن يتبع . وذلك لتصريحه أنه لم يزد على الركعة شيئاً. قال ابن رسلان: وبه قال أكثر أهل العلم. ويؤيد ذلك قوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وما فاتكم فأتموا . وفي رواية: فاقضوا . ولم يأمر بالسهو .