تشریح:
فائدہ: کسی بھی مسلمان کو مرد ہو یا عورت کسی حال میں بھی اللہ کے ذکر سے غافل نہیں رہنا چاہیے (سوائے بیت الخلا وغیرہ کے) باوضو ہو یا بے وضو، طاہر ہو یا جنبی۔ قرآن مجید بھی اللہ کا ذکر ہے مگر حالت جنابت میں ناجائز ہے۔ خواتین کو بھی ایام مخصوصہ میں عام ذکر اذکار کی پابندی کرنی چاہیے۔ مگر ان کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کے مسئلہ میں اختلاف ہے۔ امام مالک، طبری، ابن المنذر، داؤد اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہم کا میلان مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں یہ ہے کہ مباح اور جائز ہے۔ بالخصوص ایسی خواتین جو قرآن مجید کی حافظہ ہوں یا علوم شرعیہ کے درس وتدریس سے متعلق ہوں ان کے لیے یہ تعطل انتہائی حارج ہوتا ہے۔ جبکہ جنابت کا حدث بہت مختصر وقت کے لیے ہوتا ہے۔ اگرچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ جنبی کے لیے بھی تلاوت میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے۔ (صحیح البخاري و فتح الباري، کتاب الحیض، باب تقضي الحائض كلها....)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه هو، وابن حبان (798) ، وأبو عوانة في صحاحهم ؛ وقد حسنه الترمذي) . إسناده: ثنا محمد بن العلاء: ثنا ابن أبي زائدة عن أبيه عن خالد بن سلمة - يعني: الفأًفاء- عن البهِي عن عروة عن عائشة. وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات على شرط مسلم. وقد أخرجه هو وأبو عوانة في صحيحيهما ، والترمذي وابن ماجه والبيهقي، وأحمد (6/70 و 153) من طرق عن يحيى بن زكريا بن أبي زائدة عن أبيه... به. وقال الترمذي: حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث يحيى بن زكريا بن أبي زائد ، .
قلت: بلى؛ قد عرفناه من طريق غيره، وهو الوليد بن القاسم بن الوليد الهَمْداني، وهو ثقة حسن الحديث: أخرجه الإمام أحمد (6/278) : ثنا الوليد: ثنا زكريا قال: ثنا خالد بن سلمة... به. وهذا السند فيه فائدة كبرى، وها تصريح زكريا بسماعه من خالد؛ فإنه قد قيل في زكريا: إنه يدلس عن الشعبي، وبعضهم- كالمصنف وغيره- أطلق ولم يقيده بالشعبي، والله أعلم. فبهذا السند زالت شبهة تدليسه. والله الموفق لا رب سواه.