قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن أبي داؤد: كِتَابُ الْمَنَاسِكِ (بَابُ الْوُقُوفِ بِعَرَفَةَ)

حکم : صحیح 

1910. حَدَّثَنَا هَنَّادٌ عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَتْ قُرَيْشٌ وَمَنْ دَانَ دِينَهَا يَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ وَكَانُوا يُسَمَّوْنَ الْحُمُسَ وَكَانَ سَائِرُ الْعَرَبِ يَقِفُونَ بِعَرَفَةَ قَالَتْ فَلَمَّا جَاءَ الْإِسْلَامُ أَمَرَ اللَّهُ تَعَالَى نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْتِيَ عَرَفَاتٍ فَيَقِفَ بِهَا ثُمَّ يُفِيضُ مِنْهَا فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاس.

مترجم:

1910.

ام المؤمنین سیدہ عائشہ‬ ؓ ب‬یان کرتی ہیں کہ قریش اور ان کے اہل دین مزدلفہ میں وقوف کیا کرتے تھے اور اپنے آپ کو ”حمس“ کہلاتے تھے۔ جبکہ دیگر سب عرب عرفات میں وقوف کرتے تھے۔ بیان کرتی ہیں کہ جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا کہ عرفات میں آ کر وقوف کریں، پھر وہاں سے لوٹیں، چنانچہ یہی تفسیر ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی (ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاس) ”پھر لوٹو وہیں سے جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں۔“