تشریح:
فوائد ومسائل: دوسری روایت سنداً ضعیف ہے۔ تاہم پہلی حدیث صحیح ہے، اس میں بھی یہی بات بیان کی گئی ہے۔ اس سے حسب ذیل مسائل کا اثبات ہوتا ہے: (1) دیہات میں یعنی کھلے علاقے میں قضائے حاجت کے لیے آبادی سے دور جانا ضروری ہے تاکہ کسی شخص کی نظر نہ پڑے۔ شہروں میں چونکہ باپردہ بیت الخلا بنے ہوتے ہیں، اس لیے وہاں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ (2) نبی ﷺ کا معمول مبارک انسانی اور اسلامی فطرت کا آئینہ دار ہے جس میں شرمگاہ کو انسانی نظر سے محفوظ رکھنے کے علاوہ ماحول کی صفائی ستھرائی کے اہتمام کا بھی درس ملتا ہے اور مزید یہ کہ آبادی کے ماحول کو کسی طرح بھی آلودہ نہیں ہونا چاہیے۔ (3) یہ اور اس قسم کی دیگر احادیث واضح کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عام انسانی اور بشری تقاضوں سے بالاتر نہ تھے۔ (4) نیز آپ حیاو وقار کا عظیم پیکر تھے۔ (5) ان احادیث میں اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کی بالغ نظری بھی ملاحظہ ہو کہ انہوں نے نبی ﷺ کی نشست وبرخاست تک کے ایک ایک پہلو کو کس دقت نظر اور شرعی حیثیت سے ملاحظہ کیا ، اسے اپنے اذہان میں محفوظ رکھا اور امت تک پہنچایا۔(رضی اللہ عنہم)
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح) .
إسناده: أخرجه من طريق إسماعيل بن عبد الملك عن أبي الزبير عنه. وهذا إسناد ضعيف: إسماعيل بن عبد الملك صدوق كثير الوهم، وهو ابن أبي الصفَيْراء- بالقاء-. وأبو الزبير مدلس، وقد عنعنه. ومن هذا الوجه: أخرجه ابن ماجه أيضا، والحاكم والبيهقي، وله عنده تتمة. لكن الحديث صحيح لشواهده الكثيرة؛ منها الذي قبله. ومنها: عن عبد الرحمن بن أبي قرَاد: عند النسائي وغيره بسند صحيح.
والحديث قال في المجموع (2/77) : فيه ضعف يسير، وسكت عليه أبو داود؛ فهو حسن عنده .