تشریح:
(1) اس حدیث سے مذکورہ حدیث کے برعکس یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پہلے مسئلہ یہ تھا کہ سو جانے کے بعد، رات کو کھانا پینا اور بیوی سے ہم بستری کرنا ممنوع تھا۔ شارحین نے ان کے درمیان یہ تطبیق دی ہے کہ ان دونوں میں سے جو کام بھی ہو جاتا تھا، اس کے بعد اگلی رات تک اس کے لیے مذکورہ کام ممنو ع ہو جاتے تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے غروب شمس سے لے کر صبح صادق تک مذکورہ کاموں کی اجازت دے دی، جس سے مسلمانوں کو بڑی رخصت اور سہولت حاصل ہو گئی۔
(2) امام ابوداود اس امر کے قائل ہیں کہ رمضان کے روزے براہ راست فرض کیے گئے تھے، ان سے پہلے عاشور وغیرہ کے روزے فرض نہ تھے۔ واللہ اعلم
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وأخرجه البخاري. وصححه الترمذي) . إسناده: حدثنا نصر بن علي بن نصر الجَهْضَمِي: أخبرنا أبو أحمد: أخبرنا إسرائيل عن أبي إسحاق عن البراء.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ لولا أن أبا إسحاق- وهو السبيعي- مدلس، وكان اختلط. وإسرائيل حفيده، وقد توبع كما يأتي؛ وليس فيهم سفيان وشعبة. لكن الحديث قوي بما قبله وغيره؛ مما أشرت إليه آنفاً. والحديث أخرجه البخاري (4/103- 105) ، والترمذي (2972) ، والدارمي (2/5) ، والبيهقي (4/201) ، وأحمد (4/295) ، وابن جرير في التفسير (2938 و 2939) من طرق أخرى عن إسرائيل... به. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح . ثم أخرجه البخاري (8/146) ، والنسائي (1/305) ، وأحمد أيضاً من طريقين آخرين... به نحوه.