تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت و تزکیہ سے مردوں کے علاوہ خواتین بھی بہرہ ور تھیں اور ان میں آخرت کی رغبت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ اس طرح کی شکایت سامنے آئی جو اس حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ حیف ہے ان لوگوں پر جو اس طرح کی مقدس ہستیوں کے ایمان کو مشکوک گردانتے ہیں۔
(2) شوہر کو حق ہے کہ بلا تخصیص وقت اپنی بیوی سے تمتع کرے، گویا حقوق تمتع اس کی ملک ہیں، بیوی کسی طرح انکار نہیں کر سکتی الا یہ کہ عذر شرعی اور معقول ہو، بلکہ انکار پر مناسب سزا بھی مباح ہے۔
(3) بعد از فاتحہ مختصر قراءت سے بھی نماز کامل ہوتی ہے۔
(4) عورت کو اس قدر لمبی نماز نہیں پڑھنی چاہیے کہ شوہر اس کے انتظار میں پیچ و تاب کھاتا رہے۔
(5) بیوی کو نفلی روزے شوہر کی اجازت کے بغیر نہیں رکھنے چاہئیں۔ بعض اوقات یہ اجازت میلان طبع سے بھی سمجھی جا سکتی ہے۔
(6) جناب صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابہ میں سے تھے۔ ان کا ذکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق واقعہ افک میں بھی آتا ہے۔ ان کا سورج چڑھنے نماز پڑھنا تو واقعتا بعد از طلوع ہوتا تھا یا مراد ہے کہ بالکل آخری وقت میں پڑھتے تھے کہ سورج نکلنے والا ہوتا۔ اور اس کا سبب انہوں نے بیان کیا ہے کہ یہ گویا خاندانی عادت سی تھی کہ یہ لوگ نیند کے متوالے تھے اگر کوئی جگانے والا نہ ہوتا تو ازخود جاگ نہ سکتے تھے۔ ایک عذر یہ بھی بیان ہوا کہ یہ لوگ رات کو دیر تک پانی ڈھوتے تھے اور دیر سے سونے کی وجہ سے صبح بروقت جاگ نہ سکتے تھے۔ بہرحال اگر عذر معقول ہو تو شرعا قبول ہے کہ سونے والے پر مواخذہ نہیں، ایسی صورت میں جب جاگ آئے فورا نماز پڑھ لے۔ اس سے صبح دیر سے اٹھ کر نماز پڑھنے کے معمول کو جواز بنانے پر استدلال نہیں کیا جا سکتا، اس لیے حضرت صفوان رضی اللہ عنہ کو یہ اجازت تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی، جن کو اس قسم کی صورت حال میں بذریعہ وحی مطلع کر دیا جاتا تھا۔ اس لیے حضرت صفوان کا عذر تو معقول سمجھ لیا گیا، لیکن ہم اپنے تساہل کو بھی اسی طرح کا معقول عذر سمجھ لیں، تو اس میں کوئی معقولیت نہیں ہو گی۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين، وكذلك قال الحاكم والذهبي، وصححه ابن حبان والعسقلاني) . إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا جرير عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي سعيد. قال أبو داود: رواه حماد- يعني: ابن سلمة- عن حميد وثابت عن أبي المتوكل .
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين. والحديث أخرجه الإمام أحمد وابنه (3/80) ... بإسناد المؤلف ومتنه. وأخرجه الطحاوي في مشكل الآثار (2/424) ، والحاكم (1/436) ، وعنه البيهقي (4/303) عن عثمان... به. وقال الحاكم: صحيح على شرط الشيخين ، ووافقه الذهبي. وتابعه أبو خيثمة: حدثنا جرير... به. أخرجه ابن حبان (956) . وتابعه أبو بكر بن عياش عن الأعمش... به: أخرجه أحمد (3/84- 85) . وشريك عن الأعمش... مختصراً جداً؛ بلفظ: لا تصومي إلا بإذنه . أخرجه الدارمي (2/12) . وقد أُعِل بما لا يقدح، فقال الحافظ في الفتح (8/272) : قال البزار: هذا الحديث كلامه منكر، ولعل الأعمش أخذه من غير ثقة، فدلّسه، فصار ظاهر سنده الصحة، وليس للحديث عندي أصل. انتهى. وما أعله به ليس بقادح؛ لأن ابن سعد صرح في روايته بالتحديث ببن الأعمش وأبي صالح، ورجاله رجال الصحيح . ولما أخرجه أبو داود بعده عن أبي المتوكل عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وهذه متابعة جيدة تؤْذِنُ بأن للحديث أصلاً... إلخ. وصرح في الإصابة بأن إسناده صحيح، وأجاب عما استنكره البزار وغيره بكلام جيد، سبقه إليه ابن القيم في تهذيب السن (3/336) ؛ فليرجع إليه من اء. (تنبيه) : الحديث عزاه في المشكاة (3269) لابن ماجه أيضاً! خلافاً لـ تحفة المزي (4012) .