تشریح:
1۔ جہادی مہموں اور دیگر اہم مواقع پر پہرہ داری کا انتظام حسب ضرورت مشروع ومسنون بلکہ واجب ہے۔ اور توکل کے خلاف نہیں۔
2۔ نماز کے دوران میں بلاوجہ التفات ممنوع ہے۔ مگر اہم ضرورت کے پیش نظر مباح ہے۔ مگر خیال رہے کہ منہ پھیر کر نہ دیکھا جائے۔
3۔ صحابی رسول ﷺ نے فرمان رسولﷺ کے ظاہر الفاظ پر اس شدت سے تعمیل کی کہ ساری رات گھوڑے کی پیٹھ پر گزار دی۔
4۔ نبی کریمﷺ کا یہ فرمانا کہ تم اس کے بعد اور کوئی عمل نہ بھی کرو تو مواخذہ نہیں، ان کے اس عمل کی قبولیت کی بشارت تھی۔ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ انہیں اعمال تکلیفہ سے آزادی کا پروانہ دے دیا گیا تھا۔ بلکہ اس میں ان کی بخشش کی خوش خبری تھی۔ جس کی بنا پر یہ لوگ اور بھی زیادہ متقی عامل اور محنت کش ہوجاتے تھے۔ جیسے کہ خود رسول اللہ ﷺنے اپنے بارے میں فرمایا تھا۔ کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1130۔ و صحیح مسلم، صفات المنافقین، حدیث: 2819)
5۔ جہاد میں پہرہ داری کے ایک آسان عمل کا یہ اجر ہے تو قتال معرکہ آرائی کے فضائل کس قدر زیادہ ہوں گے۔
6۔ مجاہدین معرکی طرح فکرو عمل کے میدان میں بھی علمائے حق پر لازم ہے۔ کہ دنیا میں پھیلنے والی اسلامی تحریکوں پر گہری نظر رکھیں۔ جو کہ مسلمانوں اور ان کے معاشرے میں نقب لگانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتیں۔ اور ان کا جواب بھر پور علمی وفکری اسلوب میں دینا واجب ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح) . إسناده: حدثنا أبو توبة: ثنا معاوية- يعني: ابن سَلام- عن زيد- يعني: ابن سَلام- أنه سمع أبا سلام قال: حدثني السَّلُولِي أبو كبشة أنه حدثه سهل ابن الحنظلية.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم، كما تقدم برقم (850) . والحديث أخرجه النسائي في الكبرى - كما في تحفة الأشراف (4/95) - والبيهقي (9/149) من طريقين آخرين عن أبي توبة... به. وتابعه مروان بن محمد: ثنا معاوية بن سلام ... به.