تشریح:
اس باب کی احادیث سمجھنے کے لئے چند امور معلوم ہونے چاہیں:
1۔ اگر امیر المجاہدین یا کوئی اور شخص دو شہسواروں میں دوڑ وغیرہ کا مقابلہ کرائے اور جیتنے والے کو انعام واکرام دے تو جائز ہے۔
2۔ لیکن دو افراد (یا فریق) آپس میں یہ طے کر کے مقابلہ کریں کہ ہارنے والا جیتنے والے کو اس قدر انعام دے گا تو یہ جوا ہے۔ اور ناجائز ہے۔
3۔ اگر ان دو مقابلہ کرنے والوں میں کوئی تیسرا فریق داخل ہو جائے جس کے جیتنے یا ہارنے کا کوئی یقین نہ ہو بلکہ ان کے ہم پلہ ہونے کی بناء پر کوئی بھی نتیجہ نکل سکتا ہو کہ اس کے جیت جانے پر وہ دونوں اس کو انعام دیں او ر ہار جانے پر اس پر کچھ بھی لازم نہ آتا ہو تو یہ صورت جائز ہے۔ چونکہ اس کا ان دو میں داخل ہوجانا ان کے انعام لین دینے کو جائز بنا دیتا ہے، اس وجہ سے اسے محلل کہا جاتا ہے۔ محلل یعنی (جوئے سے) حلال کرنے والا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ لأن سفيان بن حسين ضعيف في الزهري، وسعيد ابن بشير. قال أبو داود: رواه معْمرٌ وشُعيْبٌ وعقِيلٌ عن الزهري عن رجال من أهل العلم. وهذا أصح عندنا ) . إسناده: حدثنا مسدد: حدثنا حُصيْنُ بنُ نُميْرٍ : حدثنا سفيان بن حسين. (ح) . وحدثنا علي بن مسلم: حدثنا عبّاد بن العوام: أخبرنا سفيان بن حسين - المعنى- عن الزهري...
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله كلهم ثقات رجال البخاري؛ غير سفيان بن حسين- وهو الواسطي-، وقد اختلفوا فيه، ويُتلخصُ منه أنه ثقة من رجال مسلم؛ حجة إلا في روايته عن الزهري خاصة- كما هنا-، فإنه ضعيف؛ كما يشير إلى ذلك الذهبي بقوله في الكاشف (1/377) : وقال (س) : ليس به بأس إلا في الزهري. وقال ابن سعد: ثقة يخطئ كثيراً . وقال الحافظ في التقريب : ثقة في غير الزهري باتفاقهم . وأما سعيد بن بشِيْر: فضعيف معروف به، فمثلهما مما لا يُحْتج بحديثهما، لا سيما إذا خالفهما الثقات مثل معمر وغيره ممن ذكر المؤلف؛ فإنهم أوقفوه على رجال من أهل العلم؛ ولذلك قال: إنه أصح . وانظر تفصيل هذا وتخريجه في إرواء الغليل (1509) .