تشریح:
1۔ انسان کا اکیلے سفر کرنا بعض اوقات انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے۔ بالفرض کوئی حادثہ پیش آجائے تو اسے سنبھالنے والا کوئی نہ ہوگا۔ اور نہ کوئی خبر ہی ملے گی۔ اس طرح دو افراد کا معاملہ بہت کمزور ہے۔ البتہ تین ہوں تو سب کو مکمل سہولت ہوگی۔ باجماعت نماز پڑھیں گے۔ ایک دوسرے کے انیس اور معاون ہوں گے۔
2۔ موجودہ حالات میں بسوں گاڑیوں اورجہازوں میں اگرچہ ایک کثیرتعداد بطور قافلہ کے سفرکرتی ہے۔ اور مذکور نہی سے انسان خارج ہوجاتا ہے۔ مگر انسان کو اپنے محب اور انیس رفیق سفر ہوں۔ تو بہت ہی افضل ہے۔ کیونکہ عام ہمراہی کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ بالخصوص اب جبکہ شروفساد بہت بڑھ گیا ہے۔ اور دین وامانت میں کمی آتی جا رہی ہے۔
3۔ یہ حدیث تنہا سفر کرنے کی قباحت پر صریح دلالت کرتی ہے۔ اس لئے بعض اہل علم نے اس حدیث سے یہ استنباط کیا ہے۔ کہ صوفی قسم کے لوگ تن تنہا تہذیب نفس اور مزعومہ چلہ کشی کے نام پرصحرائوں اور بے آباد علاقوں کے جو سفر اخیتار کرتے ہیں۔ وہ بھی صریحا غلط اور مردود ہیں۔ ایسے ہی وہ چلہ کشی جو آجکل بزرگ اور ولی اللہ بننے کے چکر میں کی جاتی ہے۔ یہ بھی قرآن وحدیث کے منافی ہے۔ اس لئے ایسے تمام امور سے احتراز اور اجتناب ضروری ہے۔ کیونکہ یہ چیزیں بدعت ہیں۔ بدعت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا واضح فرمان ہے۔ کہ جس نے بھی دین اسلام میں کوئی نئی بات پیدا کی جو اس میں نہیں ہے وتو وہ مردود ہے۔ـ (صحیح البخاري، الصلح، حدیث: 2697)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن، وحسنه الترمذي، وصححه الحاكم والذهبي وابن خزيمة، وحسن الحافظ إسناده) . إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة القعنبي عن مالك عن عبد الرحمن بن حرملة عن عمرو بن شعيب.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال مسلم؛ غير عمرو بن شعيب وأبيه، وهو إسناد حسن، كما تقدم تقريره مفصلاً برقم (124) ؛ ولذلك قال الحافظ ابن حجر: وهو حديث حسن الإسناد . والحديث أخرجه الترمذي وغيره من طريق مالك وغيره، وقال الترمذي: حديث حسن . وهو مخرج في الصحيحة (62) ، فأغنى عن الإعادة؛ غير أني أزيد هنا فأقول: إنه رواه ابن خزيمة في صحيحه (2570) عن يحيى بن سعيد عن ابن عجلان عن عمرو... به. وخالفه المغيرة بن عبد الرحمن المخزومي فقال: ثنا ابن عجلان عن أبي الزناد عن الأعرج عن أبي هريرة... به مرفوعاً؛ ذكره الحاكم (2/102) شاهداً لحديث الباب، وتبعه الحافظ في الفتح (6/53) . ثم قال الحاكم: صحيح على شرط مسلم ! ووافقه الذهبي! وأقره العسقلاني ! وفي ذلك نظر من وجهين: الأول: أن ابن عجلان ليس على شرط مسلم؛ وإنما روى له تبعاً. والمخزومي لم يرو له مسلم أصلاً، وإنما البخاري، ثم هو إلى ذلك صدوق يهم، كما في التقريب . والآخر: أنه- مع وهمه- قد خالف يحيى بن سعيد- الجبل ثقة وحفظاً- في إسناده كما ترى؛ فمثله لا تطمئن النفس للاستشهاد بما خالف فيه! فتأمل. وقد خالف مالكاً: ابن أبي الزناد، فرواه عن ابن حرملة عن سعيد بن المب
عن أبي هريرة... مرفوعاً نحوه. وابن أبي الزناد فيه ضعف؛ لا سيما عند المخالفة، لكن الراوي عنه فيه جهالة، ولذلك خرجته في الضعيفة (3767) .