قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن أبي داؤد: كِتَابُ الْجِهَادِ (بَابٌ فِي الْأَسِيرِ يُوثَقُ)

حکم : صحیح 

2679. حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ الْمِصْرِيُّ وَقُتَيْبَةُ قَالَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلًا قِبَلَ نَجْدٍ، فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ، يُقَالُ لَهُ: ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ، سَيِّدُ أَهْلِ الْيَمَامَةِ، فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: >مَاذَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟<، قَالَ: عِنْدِي يَا مُحَمَّدُ خَيْرٌ، إِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ, فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ فَتَرَكَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا كَانَ الْغَدُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ: >مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟<، فَأَعَادَ مِثْلَ هَذَا الْكَلَامِ فَتَرَكَهُ، حَتَّى كَانَ بَعْدَ الْغَدِ فَذَكَرَ مِثْلَ هَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ< فَانْطَلَقَ إِلَى نَخْلٍ قَرِيبٍ مِنَ الْمَسْجِدِ، فَاغْتَسَلَ فِيهِ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ... وَسَاقَ الْحَدِيثَ. قَالَ عِيسَى، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ وَقَالَ: ذَا ذِمٍّ.

مترجم:

2679.

سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نجد کی طرف ایک جہادی دستہ روانہ فرمایا۔ وہ قبیلہ بنو حنیفہ کا ایک آدمی پکڑ لائے جس کا نام ثمامہ بن اثال تھا اور وہ اہل یمامہ کا سردار تھا۔ چنانچہ انہوں نے اسے مسجد کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا تو رسول اللہ ﷺ اس کے پاس آئے اور پوچھا ثمامہ! تیرے پاس کیا ہے؟ (یا تیرا کیا خیال ہے؟) اس نے کہا: اے محمد! میرے پاس خیر ہے۔ اگر تم نے قتل کیا تو ایک خون والے کو قتل کرو گے۔ اور اگر احسان کرو گے تو ایک شکر گزار پر احسان کرو گے۔ اگر آپ کو مال کی ضرورت ہو تو کہیے جتنا چاہتے ہو ملے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے اسی حال پر رہنے دیا۔ اگلا دن ہوا تو آپ ﷺ نے اس سے پھر پوچھا: ثمامہ! تیرے پاس کیا ہے؟ (یا تیرا کیا خیال ہے؟) تو اس نے پہلے جیسی بات دہرائی۔ پس رسول اللہ ﷺ نے اسے اسی حال پر رہنے دیا۔ حتیٰ کہ اگلا دن ہوا تو بھی یہ مکالمہ ہوا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ثمامہ کو آزاد کر دو۔“ چنانچہ وہ چلا گیا اور مسجد کے قریب نخلستان میں پہنچا، وہاں جا کر غسل کیا اور پھر مسجد میں واپس آ گیا اور کہنے لگا: «أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» ”میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔“ اور دونوں نے پوری حدیث بیان کی۔ عیسی بن حماد نے کہا ہم کو لیث بن سعد نے خبر دی تو اس میں «إن تقتل تقتل ذا دم» کی بجائے «ذا ذم» کے لفظ بیان کیے۔ (اگر قتل کیا تو) ایک صاحب ذمہ اور احترام والے کو قتل کرو گے، (مفہوم دونوں کا یہ ہے کہ میری قوم بدلہ لے گی)۔