تشریح:
کفار سے مقابلے میں حاصل ہونے والے مال واسباب کو غنیمت کہا جاتا ہے۔ اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کے نام کا ہوتا ہے۔ جسے عربی میں خمس کہتےہیں۔ رسول اللہ ﷺ یہ حصہ اپنے صوابدید پر پانچ جگہ خرچ کرسکتےتھے۔ اس مسئلے کا ذکر دسویں پارے کی ابتداء میں ہواہے۔ (وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ) (الانفال۔41) یہ جان لو کہ تمھیں جو کچھ بھی غنیمت میں ملے اس سے پانچواں حصہ اللہ کا ہے۔ اور رسول ﷺ کا ہے۔ اور قرابت داروں یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کا ہے۔ بقیہ غنیمت کو مجاہدین میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پیدل کو ایک حصہ اور سوار کو مذید دو حصے ملتے ہیں۔ اور کافروں سے بغیرلڑے بھڑے حاصل ہونے والے مال کو فے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور اس کا مصرف بھی تقریبا یہی ہے۔ (دیکھئے۔ سورۃ الحشر آیات۔ 6 وما بعد)