تشریح:
یعنی عرب کے متعلق آتا ہے۔ کہ وہ دنبے کی چکتی کاٹ لیتے۔ اور زخم پر دوا لگا دیتے۔ اس طرح جانور بھی زندہ رہتا اورگوشت بھی کھا لیتے۔ تو شریعت نے اس کو مردار فرمایا ہے۔ یعنی حرام ہے۔ اور کتاب الصید میں اس حدیث کا تعلق یوں ہے۔ کہ اگر شکاری کتے نے یا تیر اور گولی وغیرہ نے جانور کا کوئی حصہ علیحدہ کر دیا گیا ہو اگر اسی حالت میں جان نکل گئی ہو تو دونوں ٹکڑے حلال ہیں۔ لیکن اگر روح نہیں نکلی اور کوئی حصہ الگ ہوچکا ہو۔ اور پھر اسے ذبح کی جا رہا ہو تو ذبح سے پہلے علیحدہ ہوجانے والا حصہ کھانے میں احتیاط کرنی چاہیے۔ورنہ نشانہ مارتے ہوئے بسم اللہ تو پڑھی جا چکی ہے۔ اسے بھی کھایا جا سکتا ہے۔