تشریح:
اس باب کی احادیث اور اس موضوع کی آیات کریمہ سے واضح ہے۔ کہ اموال فے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےلئے مخصوص تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو حسب ارشادات ربانی اپنے ذاتی اخراجات اور مصارف جہاد کے علاوہ دیگر مستحق مسلمانوں میں تقسیم فرما دیا کرتے تھے۔ اپنے اور اہل وعیال کے اخراجات کے لئے محفوظ جایئداد کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بصراحت فرما دیا تھا۔ کہ اسے بطور وراثت تقسیم نہیں کیا جائے گا۔ گو کہ ابتداء میں اہل بیت کے چند بزرگ اس مسئلے میں اپنے لئے شاید کوئی خصوصیت سمجھتے رہے ہوں۔ مگر حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور پھرحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں اصحاب حل وعقد کے روبرو صریح دلائل سے مطمئین فرمادیا۔کہ ان کا عندیہ راحج نہیں ہے۔جس پروہ بالاخر مطمئن ہوگئے تھے۔مگرتعجب ہے کہ رافضیوں میں یہ بات شروع سے اب تک بالعموم کہی جاتی ہے۔ کہ شیخین نے نعوذباللہ ۔اہل بیت کا حق مارلیا تھا۔اور وہ اس موقف کو اپن اس سادہ لوح عوام کے سامنے کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں ہے کہ انبیاء ؑ کی وراثت ہوتی ہے۔اور دلیل دیتے ہیں کہ ﴿يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ﴾ (النساء۔11) اللہ تمھیں اپنی اولادوں کو ورثہ دینے کا حکم دیتا ہے۔ اور حضرت سلمان علیہ السلام اپنے والد کے وارث قرار پائے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ( ﴿وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ﴾ (النمل۔16) اور دائود کا وارث سلمان بنا اور حضرت زکریا دعایئں کرتے رہے کہ انہیں بچہ ملے جو ان کا وارث ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ﴿فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا ﴿٥﴾ يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ﴾ (مریم:65) مجھے تو اپنے پاس سے ایک وارث عطا کر وہ وارث ہومیرا اور وارث ہو آل یعقوب کا وغیرہ۔ مگر عصبیت سے بالا تر ہوکر علم وتقویٰ اور دیانت سے غور کریں۔ تو معلوم ہوگا کہ ان کا مذکورہ بالااستدلال ایک ادھورا سچ ہے۔ اولاد کو ورثہ دینے کا عام حکم مطلقاً عموم پر ہرگز نہیں ہے۔ جیسے کہ کافر۔ قاتل عمدا اور غلام اولاد اپنے ماں باپ کی وارث نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ عام مخصوص منہ البعض (عام حکم کا اطلاق بعض خاص صورتوں پرنہیں ہوتا) کی صورت سے ہے۔ حضرت سلمان ؑ اپنے والد حضرت دائود ؑ کے بلاشبہ وارث ہوئئے ہیں۔ مگر مال ودولت کے نہیں بلکہ علم وکتاب اور اس طرح کی دیگرذمہ داریوں کے وارث ہوئے ہیں۔اس مفہوم کے لئے لفظ وراثت ہی استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ مال ودولت کےلئئے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ﴿ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَ﴾ (فاطر۔32) پھر ہم نے اپنے منتخب بندوں کو اس کتاب کا وارث بنایا اور اگر یہاں مال کی وراثت مراد لی جائے۔ تو پھر یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ دائود علیہ السلام کی اولاد میں سے صرف سلمان ؑ ہی کو وارث بنایا جائے۔ اور دوسروں کو محروم کردیا جائے؟ اور پھر صرف مال یا حکومت کا وارث ہوتا۔ توکوئی خاص مدح کی بات نہیں۔ کیونکہ یہ دنیا کے معروف معمولات میں سے ہے۔ حضرت سلمان ؑ اگر مال کے وارث بنے تو یہ کون سی بڑی بات ہے۔ کہ قرآن بطور خاص ان کا تزکرہ کرے۔ اسی طرح حضرت زکریا ؑ کی دعائوں کے معنی بھی یہی ہیں۔ کہ وہ اپنے علم کا وارث طلب کر رہے تھے۔ نہ کہ مال کااگر(يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ) سے مراد مال کی وراثت لی جائے۔ تو دعا کامطلب یہ ہوگا کہ پوری آل یعقوب کے مال کاوہ وارث بنے۔ جو حضرت زکریا ؑ کو بطور ولی عطا کیا جائے۔جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان کوجو وارث عطا کیا۔وہ اموال دنیا سے مطلقاً بے رغبت رہا۔ یعنی حضرت یحیٰ ؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا دیگر انبیائے سابقین ؑ نے علم وکتاب کے علاوہ اپنی کوئی وراثت نہیں چھوڑی۔ اور نہ کسی کو اپنا وارث بنایا۔ حضرات شیخین نے بقول ان لوگوں کے اگر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مال کی وراثت نہیں بھی دی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی محروم رہے ہیں۔ خود ان کی اپنی صاحبزادیاں سیدہ عائشہ صدیقہ کائنات رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم میں تھی۔ انہیں بھی محروم کیا گیا۔ اگر یہ مسئلہ وراثت ایسا ہی تھا۔ جیسا کہ یہ لوگ باور کراتے ہیں۔ تو کیوں نہ ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دور خلافت میں جب کہ وہ کلی طور پر بااختیار تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحویل میں جو اموال رہے تھے۔ انہیں وراثت کے طور پر تقسیم کرکے تمام اہل حقوق کو ان کے حقوق دے دیتے؟ لیکن حق یہ ہے کہ انہوں نے بھی حضرات شیخین حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیصلے کو (جوکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق تھا) برقرار رہنے دیا۔ جیسا کہ شروع میں تھا۔