تشریح:
فوائد ومسائل :( 1)۔ یہ روایت اگرچہ ایک مجہول روای(شیخ) کی بنا پر ضعیف ہے مگر دیگر صحیح احادیث سے یہ مسئلہ اسی طرح ثابت ہے کہ پیشاب سے ازحد احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ انسان کا پیشاب نجس عین ہے اگرچہ اس کا جرم نظر نہیں آتا۔ اس سے بچنا اور طہارت حاصل کرنا فرض ہے۔ دودھ پیتا بچہ یا سلس البول کا مریض اس حکم سے مستثنیٰ ہے۔ پیشاب کرنے کے لیے ایسی جگہ ڈھونڈنی چاہیے جہاں سے چھینٹے پڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔ جگہ نرم نہ ہو تو نرم کرلی جائے۔ یا ڈھلان ایسی ہو کہ پیشاب کے چھینٹوں سے آلودہ ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ’’ان دونوں قبروں والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور باعث عذاب کوئی بڑی چیز نہیں، ان دونوں میں سے ایک پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا۔‘‘ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:218) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیشاب کے چھینٹوں سے سخت پرہیز کرنا چاہیے۔ وہ لوگ جو پیشاب کرتے وقت چھینٹوں سے پرہیز نہیں کرتے ، اپنے کپڑوں کو نہیں بچاتے ، پیشاب کرکے (پانی کی عدم موجودگی میں ٹشو یا مٹی وغیرہ سے) استنجا کیے بغیر فورا اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، ان کے پاجامے، پتلون، شلوار اور جسم وغیرہ پیشاب سے آلودہ ہو جاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ پیشاب سے نہ بچنا باعث عذاب اور کبیرہ گناہ ہے۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے ایک اور روایت مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے معاملے میں (طہارت سے غفلت برتنے پر) ہوتا ہے، لہذا اس سے احتیاط کرو۔‘‘ (صحیح الترغیب والترہیب، الجزء الاول، حدیث:158) (2) اسلام دین نظافت وطہارت ہے جو کہ فرد اور معاشرے کو داخلی و ظاہری ہر لحاظ سے طہارت ونظافت کا پابند بناتا ہے۔ (3) خیرالقرون میں لوگ اصحاب علم وفضل سے مسائل معلوم کیا کرتے تھے اور احادیث کی تحقیق بھی کرتے تھے، نیز دیگر علماء کی بیان کردہ روایات اور فتوے کی جانچ پرکھ کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ (4) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی، باوجود یکہ آپ اہل بیت کے ذی وجاہت فرد اور جلیل القدر صحابی تھے، تحقیق مسائل میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مراجعت میں کوئی باک محسوس نہیں فرمایا۔ علمائے حق کی یہی شان ہے اور طلبہ وعوام کے لیے بہترین نمونہ ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: ضعفه البغوي والمنذري والنووي والعراقي) . [إسناده ((*) (تنبيه) : لم يذكر الشيخ رحمه الله أسانيد الأحاديث (1 و 2 و 4) على طريقته في للكتابين الصحيح و الضعيف ، وقد رأينا ذكرها للفائدة. (الناشر) .) : حدثنا موسى: حدثنا حماد: أخبرنا أبو التياح] . وعلته جهالة شيخ أبي التياح الذي لم يُسمّ، وهذه علة واضحة، حتى قال النووي رحمه الله في المجموع () : وإنما لم يصرحْ أبو داود بضعفه؛ لأنه ظاهر ! وقال المنذري في مختصره (1/15) : فيه مجهول . ومنه تعلم أن رمز السيوطي له في الجامع الصغير بأنه: (حديث حسن) !
غير حسن.
وأما قول المناوي في شرحه : رمز المؤلف لحسنه، فإن أراد لشواهده؛ فمسلّم. وإن أراد لذاته؛ فقد قال البغوي وغيره: حديث ضعيف، ووافقه الولي العراقي، فقال:
ضعيف لجهالة راويه !
قلت: لست أدري ما هي هذه الشواهد التي أشار إليها المناوي؟! فإني لم أجد للحديث ولا شاهداً واحداً يأخذ بعضده ويقويه، وما أعتقد أنه يوجد! ويؤيدني في ذلك قول البغوي: إنه حديث ضعيف ؛ فان فيه إشارة إلى أنه لا يوجد ما يقويه؛ وإلا لقال: إسناد ضعيف، ولم يقل: حديث ضعيف. والفرق بينهما واضح بيِّنٌ عند من له اطِّلاع على مصطلحاتهم في هذا الفن
الشريف. وأما قول صاحب عون المعبود - تبعاً للشوكاني-: والحديث فيه مجهول، لكن لا يضر؛ فإن أحاديث الأمر بالتنزه عن البول تفيد ذلك !
يعني: على قاعدة ما لا يقوم الواجب إلا به فهو واجب ؛ فإذا كان التنزه من البول لا يتحقق إلا بارتياد وطلب مكان لين رخو؛ وجب ذلك.لكن هذا كله لا يدل على ثبوت هذه القصة، وهذا الأمر الخاص منه عليه
السلام، فوجب التوقف عن نسبته إليه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حتى تعلم صحته. نعم؛ له شاهد من فعله عليه السلام في الارتياد، لكن سنده ضعيف؛ كما
بينه في المجمع . والحديث رواه الحاكم (3/465- 466) ، والبيهقي (1/93) ، وأحمد (4/396 و399 و 414) ، والطيالسي (رقم 519) ... أتمً منه.