تشریح:
1۔ قریش مکہ کی دھمکی کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے ان کو سمجھایا کہ بیرونی دشمن کے حملہ آور ہونے سے بھی خون ریزی ہوا کرتی ہے۔ مگر اس کے بالمقابل قوم آپس میں گھتم گھتا ہوجائے۔ اور اپنے ہاتھوں اپنے عزیزوں کو قتل یا بے آبرو کرنے لگے تو اس میں رسوائی زیاد ہ ہے۔ اگر قریش نے حملہ کیا تو بھی مسلمان ان کامقابلہ کرنے میں پیش پیش ہوں گے۔ اس لئے انھیں گھبرانا اور مرعوب نہیں ہونا چاہیے۔ اور اپنے مسلمان عزیزوں کے درپےآزاد ہو جانا کسی طرح دانشمندی نہیں۔
2۔ یہودیوں کی پیش کش۔ پھر ملاقات اوربعد ازاں قتال کے سلسلے میں علامہ سیوطی نے لکھا ہے کہ اور یہ روایت مصنف عبدالرزاق میں بھی ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ اپنے تیس صحابہ کو لے کر چلے اوران کے بھی تیس عالم آئے۔ مگر وہ بہت مرعوب ہوئے۔ اور ان میں سے کچھ نے کہا کہ مسلمانوں سے یہ یوں کیا جائے کہ ساٹھ باسٹھ افراد کے اس جمگھٹے میں بات سمجھنی سمجھانی مشکل ہوگی۔ اس لئے آپ اپنے تین صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کو لے کرآیئں۔ اور ہم بھی تین علماء کو لاتے ہیں۔ اگر یہ مان گئے تو ہم مسلمان ہوجایئں گے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ اپنے تین صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کو لے کرچلے اور وہ بھی تین کولے کر چلے۔ مگر وہ اسلحہ بند تھے اور ان کا خفیہ پروگرام یہ تھا کہ یوں ھوکے سے آپﷺ کو قتل کردیں گے۔ بنو نضیر میں سے ایک خیر خواہ عورت نے اپنے مسلمان بھائی کو پیغام بھیجا کہ ان لوگوں کا پروگرام ایسا ہی ہے۔ تو وہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جلدی سے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ قبل اس کے کہ آپ ان کی مجلس میں پہنچں۔ تو آپ نے اس ملاقات سے انکار کردیا۔ اور اس غداری کا پردہ کھلنے کے بعد اگلے دن ان کا محاصرہ فرما لیا۔ (بزل المجهود)
3۔ شروع ایام میں ہجرت میں یہود سے میشاق مدینہ کا معاہدہ ہوچکا تھا۔ مگر وہ اس کے پابند نہیں رہے تھے۔ اس لئے موقع بہ موقع نئے عہد وپیمان کی ضرورت پیش آتی رہی۔ یہ قوم غداری میں معروف تھی بلکہ اب بھی ہے۔ اور پھر بالآخر غدار ی کی وجہ سے انہیں مدینہ بدر ہونا پڑا۔ اور یہ واقعہ بدر کے چھ ماہ بعد جنگ احد سے پہلے کا ہے۔
4۔ ذمی اور معاہد جب اپنے عہد کی پاسداری نہ کرے تو وہ حربی بن جاتا ہے۔ اور پھر اس سے قتال جائز ہوتا ہے۔
5۔ بنو نضیر سے چونکہ باقاعد جنگ نہیں ہوئی تھی۔ صرف محاصرہ ہوا تھا کہ وہ یہ علاقہ چھوڑکر جانے پر ر اضی ہوگئے، چنانچہ ان سے حاصل شدہ اموال منقولہ وغیرمنقولہ سب اموال فے کہلائے جن کا خرچ مکمل طور پرآپ کی صوابدید پر تھا۔ اور آپ نے ان اموال سے شہدائے بدر کے یتیموں اور بعض مفلس مہاجریں و انصار کی خبرگیری فرمائی۔