قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن أبي داؤد: كِتَابُ الطَّهَارَةِ (بَابُ التَّيَمُّمِ)

حکم : صحيح إلا قوله إلى نصف الذراع فإنه شاذ 

322. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الْعَبْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنَّا نَكُونُ بِالْمَكَانِ الشَّهْرَ وَالشَّهْرَيْنِ فَقَالَ عُمَرُ: أَمَّا أَنَا فَلَمْ أَكُنْ أُصَلِّي حَتَّى أَجِدَ الْمَاءَ. قَالَ: فَقَالَ عَمَّارٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَمَا تَذْكُرُ إِذْ كُنْتُ أَنَا وَأَنْتَ فِي الْإِبِلِ، فَأَصَابَتْنَا جَنَابَةٌ، فَأَمَّا أَنَا، فَتَمَعَّكْتُ، فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: «إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ أَنْ تَقُولَ هَكَذَا، وَضَرَبَ بِيَدَيْهِ إِلَى الْأَرْضِ، ثُمَّ نَفَخَهُمَا، ثُمَّ مَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ إِلَى نِصْفِ الذِّرَاعِ» فَقَالَ عُمَرُ: يَا عَمَّارُ اتَّقِ اللَّهَ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنْ شِئْتَ وَاللَّهِ لَمْ أَذْكُرْهُ أَبَدًا، فَقَالَ عُمَرُ: كَلَّا وَاللَّهِ لَنُوَلِّيَنَّكَ مِنْ ذَلِكَ مَا تَوَلَّيْتَ

مترجم:

322.

جناب عبدالرحمٰن بن ابزی کہتے ہیں کہ میں سیدنا عمر ؓ کے پاس تھا کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہا: ہم بعض اوقات مہینہ دو مہینہ ایسے مقامات پر ہوتے ہیں (جہاں وافر پانی نہیں ہوتا) تو عمر نے کہا: میں تو ایسی صورت میں نماز نہیں پڑھوں گا، حتیٰ کہ پانی پا لوں۔ عمار ؓ نے کہا: اے امیر المؤمنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ جب میں اور آپ اونٹ چرانے گئے تھے اور ہم جنبی ہو گئے تھے تو میں (مٹی میں) لوٹ پوٹ ہو گیا تھا، پھر ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ قصہ ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا تھا ”تمہیں یہی کافی تھا کہ ایسے کر لیتے اور آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ زمیں پر مارے، پھر ان دونوں میں پھونک ماری اور انہیں اپنے چہرے پر پھیرا اور ہاتھوں پر بھی آدھی کلائی تک۔“ تو عمر ؓ نے کہا: اے عمار: اللہ سے ڈرو (ایسی بات کیوں کہتے ہو) تو عمار نے کہا: اے امیر المؤمنین! اگر آپ کہیں تو قسم اللہ کی اس واقعہ کا کبھی ذکر نہیں کروں گا۔ تو عمر رضی نے کہا: ہرگز نہیں، قسم اللہ کی! اس میں ہم تمہیں ہی تمہاری بات کا ذمہ دار بناتے ہیں۔