تشریح:
اس حدیث میں کتے کالفظ اگرچہ عام ہے۔ شکاری ہویا غیر شکاری یا جاسوسی وغیرہ کے لئے ہو۔ اس عموم سے سب کی خریدوفروخت ناجائز ہونی چاہیے۔ لیکن اس عموم سے دوسرے دلائل کی رو سے وہ کتے مستثنیٰ ہوجایئں گے جن کے رکھنے کو احادیث میں جائز قراردیا گیا ہے۔ جیسے شکار کے لئئے رکھوالی کےلئے یا جیسے آج کل جاسوسی وغیرہ کے لئے کتے رکھنا ہے۔ جب ان کا رکھنا جائز ہے تو ان کی یقینا ً خریدوفروخت بھی جائز ہوگی۔ کیونکہ اس کے بغیر مذکورہ کاموں کےلئے کتوں کا ملنا نا ممکن ہوجائےگا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض احادیث میں استثناء بھی آیا ہے۔ جیسے حدیث ہے۔ نهی عن ثمنِ الكلبِ والسنورِ إلاكلب صيدٍ (صحیح سنن نسائی، حدیث: 4682و الصحییحة، حدیث: 348) رسول اللہ ﷺ نے کتے اور بلی کی قیمت سے منع فرمایا ہے۔ سوائے شکاری کتے کے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شکاری کتے کی خریدوفروخت جائز ہے۔ اور اس کے جواز کو جوعلت ہے۔ وہ واضح ہے۔ اسی علت کی وجہ سے رکھوالی اور جاسوسی وغیرہ مقاصد کےلئے بھی کتوں کی خریدوفروخت جائز ہوگی۔ واللہ اعلم۔